Sunday, October 25, 2015
ہاتھ کی لکیر آپ کی شادی اور پیار کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ ماہرین کا دلچسپ دعوی ڈیسک(شاید ہی کوئیشخص ایسا ہو جو محبت اور شادی کے حوالے سے اپنا مستقبل جاننے کے شوق میں کسی پامسٹ کے پاس نہ گیا ہو۔ مگر اب آپ کو اس کسی پامسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کو بتاتےہیں کہ آپ کس طرح خود ہی اپنے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر اپنی محبت اور شادی کے متعلق پیش گوئی کر سکتے ہیں۔اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ جوڑئیے۔ آپ کو ایک ہتھیلی سے دوسری میں جاتی ہوئی اردو حرف”ب“ کی شکل کی ایک لکیر نظر آئے گی۔ اگر آپ کی ہتھیلیوں پر ”ب“ کی شکل پوری طرح بنی ہوئی ہے تو آپ شریف النفس، حساس اور اچھی حسِ عامہ کے مالک ہیں اور آپ کی شادی کسی ایسے مرد یا خاتون سے ہو گی جوبہت سوں کا منظورِ نظر ہو گا۔اگر آپ کی ہتھیلیوںپر ”ب‘ ٹوٹی ہوئی ہے اور دائیں ہاتھ والا ٹکڑا اوپر اور بائیں ہاتھ والا نیچے ہے توآپ سے بڑی عمر کے لوگ پیار کرتے ہوں گے اور ممکنہ طور پر آپ کی شادی بھی آپ سے بڑی عمر کے مرد یا خاتون سے ہو گی۔آپ لوگوں کا ماحول اور صورتحال کو جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور آپ اس بات کی پرواہ نہیںکرتے ہوں گے کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔اگر آپ کی ہتھیلی پر ”ب“ ٹوٹی ہوئی ہے اور دائیں ہاتھ والا ٹکڑا بائیں ہاتھ والے ٹکڑے سے نیچے ہے تو آپ بہت تند مزاج، چیلنجز کو قبول کرنے والے، جذباتی اورپرجوش محبت کو پسند کرنے والے ہوںگے اور آپ کی شادی کسی کم عمر لڑکے یا لڑکی سے ہو گی جو غیرملکی بھی ہو سکتایا سکتی ہے۔”ب“کی اس شکلوالے لڑکے عموماً ہینڈسم اور سمارٹ اور لڑکیاں خوبصورتہوتی ہیں۔
اسلام کے اصولی قرآن کریم کی روشنی میں افراد سازی)۲(از:اخترامام عادل قاسمیمہتمم جامعہ ربانی منورواشریف، سمستی پور، بہارتعلیمشخصیت سازی کے لیے جس طرح عملی زندگی میںادب واخلاق، صلاح وتقویٰ، کردار کی بلندی، دل ونگاہ کی پاکیزگی اور لب ولہجہ کی شائستگی ضروری ہے، وہیں تعلیم وتربیت اور فکری بالیدگی کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اس سے زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے اور انسان دوررس نتائج کے حامل کارناموں کو انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے جہاں نبی کریم ﷺ کے فرائضِ منصبی پر روشنی ڈالی ہے، وہاں ایمان واخلاق کے بعد تعلیم کا تذکرہ بھی کیاہے:لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ)آل عمران:۱۶۴(ترجمہ: خدا نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کا تزکیہکرتے ہیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں؛ جب کہ پہلےیہ لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔یہ آیتِ کریمہ فرائضِ رسالت اورکارہائے نبوت کے سلسلے میں سنگِ میل کادرجہ رکھتی ہے، اس میںقرآنِ کریم نے کارِ نبوت کی تمام تفصیلات کو صرف تین عنوانات کے تحت سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔۱-تلاوتِ آیات۲-تزکیۂ اخلاق وعمل۳-تعلیمِ کتاب وحکمت٭ تلاوت آیات میں بنیادی تعلیم )جس کو قرأت بھی کہہ سکتے ہیں( اور ایمان ویقین کی آبیاری اور محنت کی ساری تفصیلات داخل ہیں، اس لیے کہ شخصیت کی ابجد قرأت سے شروع ہوتی ہے اور اسی راستے سے قلب وروح میں ایمان اور عقیدہ کا تخم پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس میں رسوخ حاصل ہوتا ہے؛ اسی لیے وحی کا پہلا سبق اس طرح شروع کیاگیا:اِقْرأ باسمِ ربِّکَ الذِي خَلَقَ، خَلَقَ الإنسَانَ مِنْ عَلَق )علق:۱-۲(ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔عبد اور معبود کے درمیان رابطہ اور تعلق کی جتنی تفصیلات ہیں، وہ بھی تلاوت آیات کیضمن میں آتی ہیں؛ اس لیے کہقرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کا کلام پڑھنا گویا اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرناہے، رابطہ کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی؛اسی لیے پوری مکی زندگی میں جس کو ہم مختصر لفظوںمیںایمانی دور کہہ سکتے ہیں، اس میںکلمۂ ایمان اور نماز اور تلاوت کے ماسوا کوئی حکمِ شرعی )اعمال کی قبیل سے( ہم کو نہیں ملتا اور یہ سب رابطۂ الٰہی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیت بتاتی ہے کہ ایمان یعنی اللہ اور بندے کے تعلق پر محنت فرائض نبوت کی پہلی منزل ہے اور انسان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اس کا درجہ اولین ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں ہم عرض کرچکے ہیں۔دوسرا مرحلہ تزکیہ ہے اس کی اہمیت پر ہم پچھلے صفحات میں گفتگو کرچکے ہیں۔تیسرا اور آخری مرحلہ تعلیم وتفکیر ہے، یہی چیز نبی آخر الزماں ﷺ کو تمام نبیوں اور رسولوں میںامتیاز بخشتی ہے، یہی آپ کا نسخۂ انقلاب ہے، یہی بات اس آخری امت کو امتِ وسط بناتی ہے، یہی دعائے خلیلؑ اور نوید مسیحؑا کا حاصل ہے، یہ ختمِ نبوت کی علامت ہے، اسی سے حضور خاتم النّبیین ﷺ کے بعد اس امت کی بقاوابستہ ہے اور یہی چیز افراد واقوام کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔کتاب سے مراد قرآنِ کریم ہے اور اس میں خدا کی وہ کتاب بھی شامل ہے، جو وسیع کائنات میں چہار طرف پھیلی ہوئی ہے، خود قرآنِ کریم بھی بار بار انسانوں کو خدا کی اس کھلی کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عہدِ گذشتہ کے واقعات سے عبرت آموز تأثر پیدا کرتا ہے۔أَفَلاَ یَنظُرون إلی الإبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ وَإلی السَّمائِ کَیْفَ رُفِعَتْ وَاِلی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ وإلی الأرضِ کَیْفَ سُطِحَتْ فَذَکِّرْ إنَّمَا أنتَ مُذَکِّر، لَسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِر )الغاشیہ(ترجمہ: کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیداکیے گئے، آسمان کس طرح اٹھائے گئے، پہاڑ کس طرح نصب کیے گئے اور روئے زمین کیسے پھیلائی گئی، آپ ان کو سمجھائیں، آپ ناصح اور سمجھانے والے ہیں، ان پر زبردستی کرنےوالے نہیں ہیں۔اس طرح کی بیشمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں بطورِ نمونہ یہی ایک کافی ہے۔قرآن اس نئے دور میں علم وعرفان اور فکر وفلسفہ کا بانی ہے، پہلے کبھی علم کو وہ درجہ نہیںدیاگیا، جو اسلام میں دیاگیا؛ اسی لیے پہلے کی تاریخوں میں وہ آفاقی شخصیتیں بھی نہیں ملتیں جو عہدِ اسلامی کے آغاز کے بعد ملتی ہیں، قرآن نے دنیا کو نیا ذہن اور نئی فکردی،اشیا کے حقائق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کی طرف ذہنوں کو متوجہ کیا اور ان کو علم وعرفان اور ظلم وجہل کا فرق بتایا، علم کے نور سے شخصیتوں میں چارچاند لگائے اور انسانوں کو ایک نئے علمی دور کے لیے تیار کیا، یہ قرآن کا وہ معجزانہ کارنامہ ہے، جو اسلام سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیںآیاتھا۔ہم اس موقع پر قرآن کے اندازِ تربیت، ذہنی ارتقا کے مراحل اور کچھ علمی نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ قرآن علم کی بنیاد پر افراد واقوام کو کس طرح تیار کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات کی بدولت ایک عام انسان کس طرح بڑے کارناموں کے لائق ہوجاتا ہے۔ذہن سازیقرآن نے ایمان وعمل کے بعد انسان کو علم وجہل، نور وظلمت اور تمدن ووحشت کا فرق سمجھایا؛ اس لیے کہ ذہنی تیاری کے بغیرکوئی نصب العین پورا نہیں ہوسکتا، جب تک انسان کو خیرو شر میں امتیاز نہ ہوگا؛ وہشعوری طور پر خیرکو نہیں اپناسکے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوْ الْأَلْبَابِ)زمر:۹(ترجمہ: اے نبی! آپ کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں رکھتے ہیں، برابر ہوجائیں گے؟ عقل والے ہی بات سمجھ سکتے ہیں۔قرآن نے اس قوم کی ترقی کی ضمانت دی جو علم ومعرفت کے راستے پر گامزن ہو:یَرْفَعُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اُوتُوْا العِلْمَ دَرَجَات)مجادلہ:۱۱(اللہ اہل علم کے درجات بلند کرتے ہیں۔قرآن نے عقل وفکر سے جاہلانہ جمود ختم کرنے کے لیے آفاق وانفس میں غور کرنے کی دعوت دی:اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِاُوْلِیْ الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَقُعُوْدًا وَعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ)آل عمران:۱۹۰-۱۹۱(ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب وروز کی گردش میں نشانیاں ہیں، عقل والوں کے لیے جو اللہکا ذکر کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں )پھر بول اٹھتے ہیں( اے ہمارے رب! تونے یہ سب بلاوجہ پیدا نہیںکیا، تو ہر عیب سے پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔دعوت انقلابجب قرآن نے محسوس کیا کہ اب اس قوم کی حسیت جاگ اٹھی ہے اور اس کی قوت فکریہ اپنی پرواز کے لیے کسی وسیع خلا کو ڈھونڈھ رہی ہے، تو فوراً اس نے انقلاب اور حرکت وعمل کی دعوت دی اور اس کو سمجھایاگیا کہ دنیا میں انقلابات عدم کے پیٹ سے وجود میں نہیں آجاتے؛ بل کہ اس کے لیے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے، زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے، وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوارا نہیں کرتی؛ بلکہ ناممکنات سے امکانات اور مشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ حالات کے بدلنےکا انتظار نہیں کرتی؛ بل کہ دستِ ہمت سے وہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے اور اندھیروں سے ڈرکر، وہ اپنا سفر موقوف نہیں کرتی؛ بل کہ احکامِ الٰہی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے:تقدیر کے پابند نباتات وجماداتمومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابنداِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُبَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖمِن وَال )رعد:۱۱(ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تکوہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیںسکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کاقرآن نے قوموں کے خیروشر کا مدار خود اس کے اپنے اعمالپر رکھ دیا ہے، جو قوم یہ کہتی ہو کہ کیا کریں حالات اور قسمت نے ہمیںپیچھے کردیا؟ وہ درحقیقت اپنی بزدلانہکم ظرفی کا اظہار کرتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جو قوم جیسا عمل کرتی ہے اس کے ساتھ قدرت کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے:فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ حَیْرًا یَّرَہٗومَنْیَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شرًا یَّرَہٗ)زلزال:۷-۸(ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔قرآن نے صاف طور پر اس قوم کو خسارہ کا سودا کرنے والی قرار دیا ہے، جس میں نورِ باطنی کے ساتھ ساتھ اخلاق وعمل کی اسپرٹ موجود نہ ہو اور قرآن اس کے لیے تاریخِ عالم اور حوادثِ روزگار کو بطورِ شہادت پیش کرتا ہے،جیساکہ سورئہ والعصر کے حوالہ سے پچھلے سطور میںعرض کیاگیا۔انقلابی ہدایاتیہ کسی قوم کو تدریجی انقلاب کی طرف لانے کے لیےقرآن کے طرزِ تعلیم کا دوسرا مرحلہ تھا، فکر وعمل کی پیہم تاکیدات کے بعد جب یہ قوم کسی عمل کے لائق ہوگئی اور علم وفن، تہذیب وتمدن اور تجارت و سیاست کے میدان میں اترنے کے قابل ہوگئی، تو اس کو کچھ اشارات دیے گئے، ہدایات واحکام سے نوازا گیا، اسرارِ عالم سے پردہ اٹھایاگیا، عقل وخرد اور فکروفن کے وہ راز بتائے گئے جو آج تک کسی مصلحِ قوم نے اپنی قوم کو نہ بتائے تھے اور خود خالقِ کائنات نے اپنی دنیا کے بعض حقائق وعلل کی نشاندہی کی، جس کی روشنی میں چل کر آج دنیا فلسفۂ جدید اور سائنٹفک دور تک پہنچی۔حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جس کتابِ الٰہی نے فکر وفلسفہ کی بنیاد ڈالی اورلوگوں کو آسمان وزمین اور مخلوقاتِ عالم میںغور کرنے کی دعوت دی وہ قرآن تھا، قرآن سے قبل کسی بڑے سے بڑے آشنائے راز نے بھی انحقائق کا پردہ چاک نہ کیا، جو خدا کے خزانۂ غیب میں مستور تھے، اس طرح گویا قرآن ہی کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ فکروفن کی بھی پہلی کتاب ہے؛ مگر افسوس کہ خود ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور غیروں کےکاسہ لیس ہوکر رہ گئے:دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھیقیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمِل بھی تووائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیامے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفِل بھی توزبان وقلم کی ضرورتقرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا؛ اس لیے کہ عالم الغیب والشہادۃ خوب جانتا تھا کہ اب جو دور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دور ہوگا، خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا اور سائنٹفک دور زبان وقلم پر تعمیر ہوگا؛ چنانچہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم ﷺ پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہتھے:اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ)علق(ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے علم سکھایا۔قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے، اس سورہ کی ابتدا ہی میں اللہ نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے، جو قرآنی اسلوب میںقلم کے لیے بہت بڑا اعزازہے:ن والقلمِ وما یَسْطُرُوْن )القلم(ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کی جولوگ لکھتے ہیں۔ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے، ان کو ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا تو دوسری طرف رموزِ کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے، جن سے قوتِ فکر کو مہمیز ملتی ہے۔ظواہر طبیعیقرآن نے بعض آیات میں ان اسباب طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں؛ مگر جمود یا غفلت کی بنا پر وہ ان میں غور نہیں کرتے اور نہ ان سےکوئی سبق حاصل کرنا چاہتےہیں:اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئًفَسَالَتْ اَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًْا وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَآئَ حِلْیَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآئًوَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال )رعد:۱۷(ترجمہ: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کواوپر اٹھالیا اور آگ میں تپاکر زیور بناتے وقت یا کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے، اسی طرح اللہ حق وباطل کی مثال بیان کرتے ہیں، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہوجاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے، اسی طرح اللہ سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍحَیٍّْ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ)انبیائ:۳۰(ترجمہ: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیںلاتے؟اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچاگیا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کہا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ایکبہت بڑے گولے )سپرایٹم( کی شکل میں تھا، معلوم طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزاء اپنے اندرونی مرکزکی طرف کھنچرہے تھے اور انتہائی شدتکے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے پھرنامعلوم اسباب کی بنا پر اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا، اور اس کے تمام اجزاء بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے:وَجَعَلْنَا فِیْ الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُوْنَ، وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَحْفُوْظًا وَہُمْ عَنْ اٰیَاتِہَا مُعْرِضُوْن)انبیائ:۳۱-۳۲(ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ ان کو لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے؛ تاکہ لوگ راہ پائیں اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیاگیا ہے، جنمیںایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمینپر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے، جس کوجدید سائنس میںارضی توازن )Isostasy(کہاگیاہے، اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میںانسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے، زمین کہیں ہموارہے تو کہیںپہاڑی دُرّے اور کہیں دریائی شگاف ہیں۔اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑینشانی ہے کہ آسمان اور اس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طور پر ہے کہ وہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے اور شہابِ ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِیْ الْبَحْرِ بِاَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْاَنْہَار،وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللّٰیْلَ وَالنَّہَارَ، وَآَتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّار)ابراہیم:۳۲-۳۴(ترجمہ: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کردیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں اور بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگادیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطہ پر مسلسل چل رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگادیا اورتمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا اور اللہ کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہوتو گنتی کاشمار پورا نہ کرسکوگے، بیشک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔اس آیت میں قرآن نے تسخیر کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایاکہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گذار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں؛ بل کہ فروتر ہے، اسلام سے قبل انسان نادانی کی بنا پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میںاپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا اور انسان کو اس کا مقام یاد دلایا:کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہےمومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاقوَاَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئًفَاَسْقَیْنَاکُمُوْہُ وَمَا اَنْتُمْ لَہُ بِخَازِنِیْن)حجر:۲۲(ترجمہ: بوجھل اور رس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سےپانی برسایا پھر تم کو خوب سیراب کیا؛ جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔اس آیت کی کسی دقیق علمی تفسیر سے گریز کرتے ہوئے،اگر ظاہری معنی ہی کے لحاظسے دیکھا جائے تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے، آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیاگیا ہے کہ ہوائوں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے؛ مگر قدرتی طورپر یہاں ابروباد کے رشتہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے۔۔۔ اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک، بجلی کی چمک اوربارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہوجاتے ہیں؛ بل کہ یہیں سے یہ انکشاف بھیہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کیشکل میں موجود ہے۔چند علمی حقائققرآن میں جہاں ظاہر بینوں اور عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہر طبیعیسے استدلال کیاگیا ہے؛ وہیں اہل نظر اور اربابِ علم وعقل کےلیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، صحیح ہے کہ قرآن کوئی فلسفہ وسائنس اور فنونِ لطیفہ کی کتاب نہیں؛ بل کہ یہ اصل میں کتابِ ہدایتہے، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر جمع کرنا ہے؛ مگر چونکہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہےاور ہر دور کے لیے کافی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے،اس بنا پر اس میں عام عقلی وبدیہی استدلالاتسے لے کر دقیق سائنسی حقائق سے بھی تعرض کیاگیا ہے؛ تاکہ ہر قسم کا مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بہتر غذا مہیا کرسکے، ہمارے محققین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے؛ اس لیے تفصیل کے لیے انھیں کی طرف مراجعت کی جائے۔میرا مقصد صرف کرگسوں میں پلے ہوئے شکست خوردہ شاہینوں کو یہ بتانا ہے کہ جس علم وفن کی تلاش اورجس آبِ حیات کی جستجو میںوہ مغرب کے بت کدوں کی خاک چھان رہے ہیں، وہ خود ان کے گھر میںموجود ہے، مغرب انھیں علم وفن کی بعض جزئیات سے آگاہ کرسکتا ہے اور آبِ حیات کے چند قطرات فراہم کرسکتا ہے؛ جب کہ خود ان کے گھر میں علم وفن کی کلیات پر مشتمل کتاب)قرآن( موجود ہے، وہ ایک قطرئہ آب کے لیے پریشان ہیں؛ حالانکہ خود ان کے مذہب کی سلسبیل سے چشمۂ حیاتبہہ رہا ہے، وہ یورپ کے آشیانوں میں شاہبازی کے آداب سیکھنے جارہے ہیں؛ جب کہ قرآن ان کو اس سے بدرجہا بہتر طور پر سکھانے کو تیار ہے؛ بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں۔وہ شکست خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میںاسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازیاس ضمن میںچند نمونے پیشکرتا ہوں:سورج کے بارے میں قرآنی تصورسورج کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواںہے:وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذٰلِکَتَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ، وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ، لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللّٰیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ)یٰس:۳۸-۴۰(ترجمہ: اور سورج اپنے ٹھکانہ کی طرف چل رہا ہے یہ عزیز وعلیم پروردگار کامقرر کردہ نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں؛ یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے، نہ سورج کے بس میںہے کہ وہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، سب آسمانی سمندر میں تیررہے ہیں۔اس آیت میںقرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میںکتنا دوٹوک نظریہ دیا ہے؛ مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانہ میں سائنس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کررہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں؛ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نظریہ غلط تھا اور صحیح نظریہ یہ ہےکہ: سورج بھی اپنے مدار پر گردش کررہا ہے۔مغربی سائنس دانوں نے اس انکشاف کو جو اہمیت دی،اس کا اندازہ ایک مشہور ماہرِ فلکیات محقق ’’سیمون‘‘ کی کتاب کے اس اقتباس سے لگایاجاسکتا ہے، جو انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے:’’اگر مجھ سے پوچھاجائے کہ سب سے اہم ترین حقیقتکیا ہے، جس کاانکشاف انسانی عقل نے کیاہے تو میں اس کے جواب میں سورج، چاند اور ستاروں کے نام لوںگا، جن کے بارے میں یہ انکشاف کیاگیا کہ یہ سب بسیط فضامیں گول گنبد کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں، جو ہمارے احساس سے بالاتر ہے۔‘‘ )مضمون جریانُالشمس: عبدالرحمن فرتاس، مجلہ العلم والایمان۱۹۷۶ء(کواکب کے بارے میں قرآنی نظریہکواکب وسیارات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ وہآسمان کی نچلی سطح کو خوبصورت بھی بناتے ہیں اور مضر اثرات اور طاغوتی یورشوں سے حفاظت کاکام بھی کرتے ہیں:اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃٍ الْکَوَاکِبِ، وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ، لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلَیوَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، دُحُوْرًا وَلَہُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ، اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ فَاَتْبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ)صافات:۶-۱۰(ترجمہ: ہم نے آسمان کو زرق برق ستاروں سے سجایا اور ہرشیطان سرکش سے اس کومحفوظ کیا، وہ ملأ اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگاسکتے اورہر طرف سے مارے جاتے ہیں؛ تاکہ ان کو بھگایا جائے اور ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے؛ مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔زمین کے متعلق قرآنی تصورقرآن نے آج سے چودہ صدی پیشترہی زمین کی خلقت، اس کی تشکیل اوراس کی حرکتکے متعلق مباحث دنیا کے سامنے رکھ دیے تھے جس پر جدید سائنس ایک حرف کا بھی اضافہ نہ کرسکی۔٭ زمین کی خلقت کے متعلق قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ: زمین انسانی آبادی کے قابل چھمرحلوں کے بعد ہوسکی۔ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلٰی الْعَرْشِ)حدید:۴(ترجمہ: اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا، چھ دنوں میں، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہُ اَنْدَادًا ذٰلِکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ، وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَا اَقْوَاتَہَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئًلِلسَّآئِلِیْنَ)حم سجدہ:۹-۱۰(ترجمہ: اے نبی! کہہ دیجیے کیا تم لوگ اس ہستی کاانکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میںبنایا اور تم اس کے لیے ہم سر ٹھہراتے ہو، وہ رب ہے تمام جہان والوں کا اوراس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اوراس میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اس کی غذائوں کانظام چاردنوں میں بنایا ضرورت مندوں کی تکمیل کے لیے۔ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان اور کائنات کو اللہ نے چھ)۶(یوم میں پیدا کیا، اس کے بعد ہی زمین انسانی آبادی کی متحمل ہوسکی؛ مگر یوم سے مراد یہاں لیل ونہار کے دومدار نہیں ہیں، جو سورج کی چوبیس )۲۴(گھنٹے کی گردش سے مکمل ہوتا ہے اور نہ قطبِ ارضی مراد ہے جو عموماً چھ )۶(ماہ کی گردش کے بعد دن یا رات کی صورت میں پیدا ہوتا ہے؛ بل کہ یوم سے مراد وہ قرآنی مدت ہے، جس کو قرآن کی دوسری آیات میں بیان کیاگیا ہے:اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْن)حج:۴۷(ترجمہ: بیشک ایک دن تیرے ربکے نزدیک تمہارے شمار کے ہزار )۱۰۰۰(سال کے برابر ہے۔تَعْرُجُ الْمَلَآئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃ)المعارج:۴(ترجمہ:فرشتے اور روح الامین وہاں تک ایک دن میںچڑھ کر پہنچتے ہیں، جس کی مقدار پچاس ہزار)۵۰۰۰۰(سال کے برابر ہے۔اس طرح ان آیات سے وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتیہے کہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل اصطلاحی طور پر چھ یوم یا چھ مرحلوں کے بعد ہوئی، جو ایک طویل ترین مدت ہے، آغاز کے وقت سے تکمیل تک کے درمیانی مراحل کیا تھے؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اور سائنس کی بھی مجال نہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک حرف بھی بتاسکے۔زمین کا ابتدائی مادہقرآن زمین کے ابتدائی مادہ کےبارے میں کہتا ہے کہ: یہ پہلے پانی میں پوشیدہ تھا اور پانی ہی اس کی اصل علت ہے، زمین اس کے اندر سے نمودار ہوئی۔وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْسِتَّۃِ اَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلٰی الْمَآئِلِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا)ہود:۷(ترجمہ: اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا؛ جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا؛ تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔علم زولوجی کی رسائی بھی اس سے آگے تک نہیںہوسکی ہے، اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ:’’زمین کو اس کی ابتدائی حالتمیں بخارات نے ڈھانپ رکھا تھا، جو بعد میں پانی سے تبدیل ہوگیا، پھر وہ پانی نشیب میں اترنے لگا اوراس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے۔‘‘)احمد محمود سلیمان، مضمون القرآن والعلم: مجلہ العلم والایمان، شمارہ۷۱نومبر۱۹۸۱ء(درمیانی مراحلعملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گذری، قرآن ان کو اشاراتی طورپر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے:وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰہَا، اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَہَا وَمَرْعٰہَا، وَالْجِبَالَ اَرْسٰہَا)النازعات:۳۰-۳۲(ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کردیا۔اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پرروشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالمِ آب میںمستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھیلنا شروع ہوا، اور پھرسطحِ ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے، اس کے بعداس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہوگئیں۔زمین کا قالبقرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ)گیند( کی طرح گول ہے یعنی خطِ استواء سے دیکھا جائےتو وسیع ترین نظر آتی ہے اور اس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے؛ مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے، قرآننے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے:اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَأْتِیْ الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہِ وَہُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ)رعد:۴۱(ترجمہ: کیا انھوں نے غور نہیں کیا؟ کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں، حکم صرف اللہ کا رہے گا، کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا اور حسابلینے میں اسے کچھ بھی دیرنہیں لگے گی۔بَلْ مَتَّعْنَا ہٰؤُلَآئِ وَآَبَآئَہُمْ حَتَّی طَالَ عَلَیْہِمُ الْعُمُرُ اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَأْتِیْ الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا اَفَہُمُ الْغَالِبُوْن)انبیائ:۴۴(ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اوران کے باپ دادائوں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گذرنےپر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کمکرتے ہیں تو کیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔ننقص من أطرافہا کا مطلب اگریہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے؛اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استواء سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔خلقت انسانی کے بارے میں قرآنی نظریہاسی طرح قرآن نے انسانی تخلیق اور اس کے درمیانی مراحل پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے، قرآن کے بیان کے مطابق جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے، تو کچھ مدت کے بعد وہبستہ خون بن جاتا ہے، اس کے بعد یہ خونِ بستہ، گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں اورپھر اس پر گوشت کی موٹی تہیں جم جاتی ہیں اور کچھ دنوں رحمِ مادر میں تربیت اور نشوونماپاکر ایک نئی صورت میں دنیا کی کھلی فضا کے اندر وہ آجاتا ہے، جس کو ہم ولادت کہتے ہیں:ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ)مومنون:۱۳-۱۴(ترجمہ: پھر ہم نے پانی کیایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو بستہ خون کی شکل دی، پھر بستہ خون کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، اس کے بعد لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بناکر کھڑا کیا؛ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔یہ چند نمونے ہیںجو قرآن کے جدید علمی حقائق کے تعلق سے پیش کیے گئے۔علم کی طلبقرآنِ کریم کی اُن تعلیمات نے مسلمانوں میں حصولِ علم کا اسپرٹ پیدا کیا اور وہ اس راہ میں بڑھتے چلے گئے، ان کے جذبۂ صادق پر حضور ﷺ کے الفاظ نے مہمیز کاکام کیا، آپ ﷺ نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا:إن العلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ وإن الأنبیائَ لم یُوَرِّثوا دیناراً ولا درہماً وإنما ورَّثُوا العلمَ فَمَنْ أخَذَہٗأخَذَ بِحَظٍ وَافِر )مشکوٰۃ(ترجمہ: بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں ہے؛ بل کہ ان کی وراثت علم ہے، پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بڑا وافر حصہ پایا۔پھر یہ کارواں بڑھتا گیا اور علمی طور پر ساری دنیا پر چھاگیا اور پوری روئے زمین ان کے زیرنگیں آگئی، اسلیے کہ علم تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، علم کے ساتھ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوسکتا ہے اور علم کے بغیر دس قدم بھی پہاڑ ہوجاتا ہے۔عہد ماضی کی ایک جھلکہم اگر اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ مسلمان علم وفن کے میدان کے کیسے شہسوار تھے اور ساری دنیا میں امامت کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوا؟ یہ تاریخ کی ایسی حقیقتہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اس موقعہ پر میں کسی مسلم مؤرخ کا حوالہ دینے کے بجائے ایک غیرمسلممؤرخ کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں، ایک انگریز مؤرخ جارج سارٹن نے اپنی کتاب ’’قدمۃ في تاریخ العلم‘‘)جو پانچ ضخیم جلدوں میںہے( میں علوم وفنون کی تاریخ، ان سے متعلق تجدید ی کارناموں کی تفصیل اور تجدیدی کام کرنے والی اقوام وشخصیات کا جائزہ پیش کیا ہے،اس نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر نصف صدی کے بعد حالات اور تقاضے بدل جاتے ہیں اور نئے حالات کے مطابق علوم وفنون کی تجدید واصلاح کا کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مرکزی شخصیت ضرور پیدا ہوتی ہے،اس طرح اس نے ہر نصف صدی پر ایک مجدد کی تلاش کی ہے۔وہ۴۵۰قبل مسیح سے لے کر۴۰۰قبل مسیح کے وقفہ کو ’’عہدِافلاطون‘‘ )ولادت۴۲۷وفات۳۴۷قبل مسیح( کہتا ہے، اس کے بعد کی صدیوں میں یکے بعد دیگرے ارسطو )ولادت۳۸۴وفات۳۲۲قبل مسیح( پھر اقلیدس )۳۰۰قبل مسیح(، پھر ارخمیدس )ولادت۲۸۷وفات۲۱۲قبل مسیح( نے علوم کی تجدیدواصلاح کاکام کیا، اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی کےآغاز سے ساتویں صدی کے آغاز تک کا زمانہ اس کے نزدیک چین کے علمی ارتقاء وتجدید کا زمانہ ہے، اس کے بعد۷۵۰ءسے لے کر۱۱۰۰ءتک کا ساڑھے تین سو )۳۵۰(سالہ طویل عہد خالص مسلمانوں کا عہد ہے،اس پوری مدت میں علوم وفنون کی تمام ترخدمات مسلمانوں نے انجام دیں، یکے بعد دیگرے ان میں مجددین علوم آتے رہے اور علوم کی خدمت انجام دیتے رہے، جابر بن حیان )۸۱۵ء(سے لے کر خوارزمی )۸۴۹ء(، رازی )۸۶۴-۹۳۲ء(تاریخ داں سیاح مسعودی )۹۵۶ء(البیرونی )۹۷۳ء-۱۰۴۸ء(اور عمر خَیّام )۱۱۳۲ء(تک مجددین وخُدّام علوم کی لمبی فہرست ہے؛ جنھوں نے علمِ کیمیا، الجبرائ، طب، جغرافیا، ریاضیات، الفیزیا اور فلکیات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، جن میںکوئی عربی ہے، تو کوئی ایرانی، کوئی ترکی ہےتو کوئی افغانی، خطہ اور رنگ ونسل سے گذرکر محض اسلامیت نے ان سب کو خدمت وتجدیدِ علوم سے جوڑ رکھا تھا، جارج سارٹن کی نگاہ میں اتنے طویل عرصے تک یورپ میںکوئی قابل ذکر آدمی نظر نہیں آتا، گیارہویں صدی کے بعد ہی جرارڈ کرمونی اور روچربیکن جیسے کچھ مفکرین پیدا ہوئے اور علم وعقل میں مقام حاصل کیا، درمیان کی صدیاں بھی اسلامی مفکرین سے خالی نہیں رہیں؛ بل کہ علامہابن رشد )۱۱۲۶ء-۱۱۹۸-(نصیرالدین محمد موسیٰ )۱۲۰۰ء-۱۲۷۳ء(ابن النفیس مصری )۱۲۸۸ء(اور ابن خلدون )۱۳۳۲ء ۱۴۰۴ء(جیسے عبقری علماء نے علم وفن کی وہ خدمات انجام دیں، جن کے سامنے یورپی علماء کے کارنامے پھیکے نظر آتے ہیں۔)مضمون: أمۃ العلم من أجل نہضۃ علمیۃ في العالم الاسلامي: الأستاذ عبدالسلام رسالہ: الیونسک آب- ایلول ۱۹۸۱ء ص۵۱(یہ تو وہ علوم ہیں، جن کو علومِ جدیدہ کہا جاتاہے اور جنپرنئی دنیا فخر کرتی ہوئی نہیںتھکتی، رہ گئے علومِ اسلامی،ادب وبلاغت، فنونِ لطیفہ، آرٹ، تعمیر وغیرہ، علومِ اخلاق، فلسفۂ اخلاق، فلسفۂ تاریخ، سیروتراجم، سلوک وروحانیت، فقہ وقانون، زراعت وتجارت اور سیاست وقیادت وغیرہ تو ان کے خادموں اور مجددوں کی بہت لمبی فہرست ہے، جن میں کوئی قوم وملت مسلمانوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیںکرسکتی۔یہ ہے اس کتابِ مقدس کا اعجاز جوہرزمانے میںاور ہر محاذ پر شخصیات اور افراد کی کھیپکی کھیپ تیار کرتی رہی ہے اور اس کی یہ صلاحیت آج بھی اسی طرح قائم ہے، فقط ہمیںاس سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہیانداز ہےمشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے٭٭
Friday, October 16, 2015
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضورﷺ نے بارگاہخداوندی میں جھولیپھیلا کر مانگا تھا اسی وجہ سے آپ کو ’’مرادِ مصطفےٰؐ‘‘کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہےاور اُنہوں نے جو علاقے فتح کیے ، ان میں موجودہ بلوچستان بھی شامل ہے ۔ آپؓ عشرہ مبشرہ خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو دنیا میں ہی حضورﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔آپؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ حفصہؓ کو حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں)ام المؤمنین( ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔آپؓ کا نام عمر ابن خطاب ، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے،آپؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے ملتا ہے مشہور روایت کے مطابق آپؓ نبوت کے چھٹے سال 33 سال کی عمر میں اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے ۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم قد مبارک دارز تھا، جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں آپؓ زبردست بہادر اور بڑے طاقت ور تھے اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی اسلام لانے کے بعد ویسی شدتاسلام میں بھی ہوئی۔ آپؓ خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں سفارت کاکام آپؓ ہی کے متعلق ہوتا تھا۔آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہو ر ومعروف ہے اور آپؓ کا اسلام لانا حضور ﷺ کی دعاؤں کا ثمرہ اور معجزہ تھا۔۔۔ ۔آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑ گیا۔۔۔ آپؓ کے اسلام لانے سے حضورﷺ نے بیت اللہ میں’’اعلانیہ‘‘ نماز ادا کی۔۔۔ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیتاللہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کر کےمدینہ جا رہا ہوں یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے لیکن کفار میںسے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھپھیلنے لگا۔خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعدمنصب خلافت کیلئے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کیلئے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کا طریقہ اختیار کیا۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓجب کسی صوبہ یا علاقہ میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے۔۔۔ اور پھر اس کو مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔۔۔ اور رعایا کو حکم تھاکہ میرے حکام )گورنرز( سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف وخطر مجھے اطلاع دیں آپؓاپنے حکام کی ذرا ذرا سی بات پر گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک پروانہلکھ کر دیتے جس پر یہ ہدایات درج ہوتیں! باریک کپڑا نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کادروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بے روک و ٹوک آجاسکے بیماروں کی عیادت کو جانا، جنازوں میں شرکت کرنا۔۔۔۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں ’’بیت المقدس‘‘ کو فتح کرنے اور ’’قیصر وکسریٰ‘‘ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خرسان اور مکران)جس میں بلوچستان کا بھی کچھ حصہ آجاتا ہے( سمیت دیگرکئی علاقے فتح کئے۔آپؓ کے دورِ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المالیعنی خزانہ کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔’’جیل خانہ‘‘ اور پولیس کا محکمہ بھی آپؓنے ہی قائم کیا۔’’تاریخ سن‘‘ قائم کیاجو آج تک جاری ہے۔ امیر المؤمنین کا لقباختیار کیا فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ’’دفترمال‘‘ قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔ اصلاح کیلئے’’درہ‘‘ کا استعمال کیا، راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا، جا بجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں والنٹریو ں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقررکئے۔اس کے علاوہ بھی عوام کیلئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات آپؓ نے جاری کئے۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ 27 ذوالحجہ 23ھ کو آپؓ حسب معمول نماز فجر کیلئے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کروائی۔۔۔ ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ ایک شخص ’’ابو لولو فیروز مجوسی‘‘ جو پہلے سے ہی ایک زہر آلود خنجر لئے مسجد کے محراب میںچھپا ہوا تھا اس نے خنجر کے تین وارآپؓ کے پیٹ پر کئے جس سے آپؓ کو کافی گہرے زخم آئے۔۔۔۔ آپؓ بے ہوش ہو کر گر گئے۔۔۔ اس دوران قاتل کو پکڑنے کی کوشش میں مزید صحابہ کرامؓ زخمی ہو گئے اور قاتل نے پکڑے جانے کے خوف سے فوری خودکشی کر لی۔۔۔۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے زخم درست نہ ہوئے اور پانچویں روز ’’یکم محرم الحرام‘‘ کو دس سال چھ ماہ اور دس دن تک 22لاکھ مربع میل زمین پر نظام خلافت راشدہؓ کو جاریکرنے کے بعد آپؓ نے 63 برس کی عمرمیں ’’جام شہادت ‘‘ نوش کر لیا۔حضرت صہیبؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور ’’روضہ نبوی‘‘ ﷺ میں خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔۔۔)رضی اللہ تعالیٰ عنہ (
Wednesday, October 14, 2015
نڈونیشیا میں سلواویسی کے جنوبی پہاڑی علاقوں کے قبائلی اپنے مرے ہوئے بچوں کو درختوں کے تنوں میں دفن کرتے ہیں۔ انڈونیشیا میں دوردراز تانا توراجا کے گاؤں میں لوگ مردہ پیدا ہونے والے یا مرجانے والے چھوٹے بچوں کو کپڑوں میں لپیٹ کر انہیں درختوں کے وسیع تنوں یا کھوہ میں دفنادیتے ہیں تاکہ وہ درختوں کے ساتھ پروان چڑھیں اورفطرت میں جذب ہوجائیں۔ اس کے لیے بڑے درختوں میں سوراخکرکے بچوں کی لاشوں کو رکھ کر اسے بند کردیا جاتا ہے اور انہیں یقین ہے کہ کچھ برس میں بچے درخت کا حصہ بن کر فطرت میں جذب ہوجائیں گے۔ اس طرح ایک درخت کئی بچوں کی قبر بنتا ہے جسے گھاس پھوساور پام کے پتوں سے ڈھانک کر بند کردیا جاتا ہے۔ درختوں میں ایسے شیرخوار بچوں کورکھا جاتا ہے جن کے دانت نہیں نکلے ہوتے، درخت کی قبر میں رکھنے کے بعد بچے کے لواحقین اپنے کپڑے بدل کر پورے گاؤں کا چکر لگاتے ہیں اور اس پوری رسم کو مائی نینکہا جاتا ہے اس میں لواحقین کو یقین ہوتا ہےکہ اس طرح مرنے والا بچہ ان کے ساتھ رہے گا خواہ اسے مرے ہوئے کتنے ہی سال بیت چکے ہیں۔ اس گاؤں کے لوگ بڑوں کے مرنے کے بعد اس کے تابوتکو رسی سے باندھ کر پہاڑ پر لٹکادیتے ہیں جب کہ اس گاؤں میں مرنے کےرسومات بھی کئی دن تک جاری رہتی ہیں۔
Thursday, October 8, 2015
سفیدبالوں کو کالا کرنے کا آسان حل (خوبصورت سیارہ چمکدار بال صحت کی نشانی ہیں اور بال کو سفید ہوجانا پریشانی کی بات ہے۔ لیکن سفید بالوں کو سیاہکرنے کیلئے کیمیکل سے بھر پور بازادی مصنوعات کے استعمال سے بچنا چاہئے کیونکہ اس آسان اور سستا حل آپکے گھر میں دستیاب ہے۔بالوں کو سیاہ کرنے والایہ محرب نسخہ تیار کرنے کیلئے آپ کو صرف تین چیزیں درکار ہیں یعنی لیمنکا رس آملے کا پاو ¿ڈر اور صاف پانی۔چار چمچ آملے کے پاو ¿ڈر میں دو چمچ پانی اور ایک لیمن کا رس شامل کر لیں اس آمیزے کو اچھی طرح مکس کر کے پیسٹ بنا لیں اور تقریبا ایک گھنٹے کیلئے اسے پڑا رہنے دیں۔اب یہ پیسٹ بالوں پر لگانے کیلئے تیار ہے۔پیسٹ کو بالوں میں اچھی طرح لگا کر 20سے25منٹ تک لگا رہنے دیں اور اس کے بعدمیںپانی سے اچھی طرح دھولیں۔خیال رہے کہ صابن یا شیمپو استعمال نہ کریں اور کوشش کریں کہ اس نسخے کے استعمالکے دوران صابن یا شیمپو سے پرہیز کریں۔ پیسٹ کو بالوں کی جڑوں تک ضرور پہنچائیں۔بال دھوتے وقت خیال رہے کہ آنکھیں محفوظ رہیں۔ا س پیسٹ کو ہر چار دن بعد استعمال کریں کچھ مہینوں میں آپکے بال مکمل طور پر سیاہ ہوجائیں گے۔جس دن پیسٹ استعمال نہ کر رہے ہوں اس دن صابن یا شیمپو استعما ل کر سکتےہیں لیکن بہتر ہے کہ ہربل شیمپو استعمال کریں اورسر کی جلد اور بالوں کی آملہ یا سرسوں کے تیل سے مالش بھی بہت مفیدثابت ہو گی۔
Wednesday, October 7, 2015
قوت باه مردانے طاقت بڑھانی کا قدرتی علاج ? ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﺕ ﺑﺎﮦ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ،ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﯾﮧ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﺎﺭﮔﺮ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﻨﻔﯽ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍٓﺝ ﮨﻢ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍٓﺳﺎﻥ،ﺑﮯ ﺿﺮﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﺎﺭﺍٓﻣﺪ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮﺑﺎﺍٓﺳﺎﻧﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﻔﯽ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻟﮩﺴﻦ : ﻟﮩﺴﻦ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺒﯽ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮍ ﺳﮯ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﺒﺎﺷﺮﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﯾﭻ ﮐﮯ ﺑﺎﮐﺮﻭ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻨﺴﯽ ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﮩﺴﻦ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻔﯿﺪ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﭨﺎﻧﮏ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺻﺮﻑ 2 ﺳﮯ 3 ﺗﻮﺭﯾﺎﮞ ﻟﮩﺴﻦ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺻﺒﺢ ﻧﮕﻞ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺳﮯ ﻟﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﮞ۔ ﭘﯿﺎﺯ: ﻗﺪﺭﺕ ﻧﮯ ﭘﯿﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻘﻞ ﮔﻢ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﮔﺮ ﻋﻀﻮ ﺑﺪﻥ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﺯ ﺍﺱ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﮨﻢ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﯿﺎﺯ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ، ﭘﯿﺎﺯ ﮐﻮﺳﻼﺩ ﮐﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺎﻟﯿﮟ۔ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ : ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﻃﺒﻌﯽ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺟﻨﺴﯽ ﺳﭩﯿﻤﻨﺎ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﺎﺟﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﮮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﺎﺭﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﺋﻤﻨﮓ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻔﯿﺪ ﺛﺎﺑﺖ ﭨﮭﮩﺮﮮ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ 150 ﮔﺮﺍﻡ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﮐﺎﭦ ﻟﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﻑ ﺑﻮﺍﺋﻞ ﺍﻧﮉﮦ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﮈﺑﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ۔ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮦ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﯾﮧ ﻣﺮﮐﺐ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺩﮮ ﮔﺎ۔ ﺑﮭﻨﮉﯾﺎﮞ: ﺳﺒﺰﯾﺎﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻏﺬﺍﺋﯽ ﺍﺟﺰﺍﺀﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻔﯿﺪ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﻨﮉﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﮟ۔ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﻨﮉﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮐﺎ ﺳﻔﻮﻑ ﺑﻨﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮ ﭘﺌﯿﮟ۔ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﮔﻼﺱ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺳﮯ ﺭﻭﺷﻨﺎﺱ ﮐﺮﺍﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻣﺎﺭﭼﻮﺏ: ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺪﺍ ﺑﮩﺎﺭ ﺑﻮﭨﯽ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﺒﺰﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﻗﻮﺕ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺫﯾﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﻨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺩﺭﮎ : ﺍﺣﺘﻼﻡ، ﺟﺮﯾﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺴﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺩﺭﮎ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻧﻌﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﺁﺩﮬﺎ ﮔﻼﺱ ﺍﺩﺭﮎ ﮐﺎ ﺟﻮﺱ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﻟﻒ ﺑﻮﺍﺋﻞ ﺍﻧﮉﮦ ﻣﮑﺲ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﭻ ﺷﮩﺪ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻣﺤﻠﻮﻝ ﺑﻨﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺮﺩﺍﻧﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ ﺩﻻﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﮭﻮﮨﺎﺭﮮ : ﭼﮭﻮﮨﺎﺭﮮ ﯾﻌﻨﯽ ﺧﺸﮏ ﮐﮭﺠﻮﺭﯾﮟ ﺁﺋﺮﻥ ﮐﺎ ﮔﮍﮪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺎ ﻣﻨﺒﻊ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﮯ، ﻧﯿﻢ ﮔﺮﻡ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﭼﻮﮨﺎﺭﮮ ﮈﺍﻟﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﭘﺴﺘﮧ ﺩﺍﻝ ﻟﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﭼﻮﮨﺎﺭﮮ، ﺑﺎﺩﺍﻡ ﺍﻭﺭ ﭘﺴﺘﮧ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﭘﯿﺲ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﭼﻤﭻ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ۔ ﻣﻨﻘﮧ : ﮐﮭﭩﺎ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﻣﻨﻘﮧ ﺑﮭﯽ ﻗﻮﺕ ﺑﺎﮦ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻢ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﻨﻘﮯ ﮐﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺤﻠﻮﻝ ﺑﻨﺎﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻟﯿﮟ۔ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ 20 ﮔﺮﺍﻡ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﮭﻮﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻗﻮﺕ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
Tuesday, October 6, 2015
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺭﻓﻊ ﺍٓﺳﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻗﺮﺍٓﻧﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ? ﺳﻮﺍﻝ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻣﻔﺘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ! ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻓﺮﻗﮧ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﺴﺎ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻭﮦ ﻗﺮﺍﻥِ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻗﺮﺍﻥِ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺲ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮭﻮﺍﯾﺎﮨﻮﮔﺎ؟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﺮﺍﮦِ ﮐﺮﻡ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﻣﺪﻟﻞ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ۔ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ: ﻗﺎﺩﯾﺎﻧﯽ ﻣﺮﺗﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﻌﻘﯿﺪﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ، ﺗﺎﺟﺪﺍﺭِ ﺧﺘﻢِ ﻧﺒﻮّﺕ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٓﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺧﺎﺭﺝ ﺍﺯ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯿﮟ، ﺟﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮑﺘﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ، ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻻﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﻤﺎﻻً ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺣﺪﯾﺚِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻗﻮﺍﻝِ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﺍﻗﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﻌﻞِ ﺭﺍﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﭘﺎﮎ ﮐﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺣﺪﯾﺚِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺍُﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ،ﺗﻮ ﺍﺱ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻮﮔﯽ، ﻧﮧ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻻﻋﻠﯽٰ ( ﺑﻠﻨﺪ، ﺍﺷﺎﺭﮦ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ) ﺗﻮ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺍﻻﺳﻔﻞ ( ﭘﺴﺖ ) ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﻗﺮﺍٓﻥِ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩِ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﮨﮯ : ﻭَﻗَﻮْﻟِﻬِﻢْ ﺇِﻧَّﺎ ﻗَﺘَﻠْﻨَﺎ ﺍﻟْﻤَﺴِﻴﺢَ ﻋِﻴﺴَﻰ ﺍﺑْﻦَ ﻣَﺮْﻳَﻢَ ﺭَﺳُﻮﻝَ ﺍﻟﻠّﻪِ ﻭَﻣَﺎ ﻗَﺘَﻠُﻮﻩُ ﻭَﻣَﺎ ﺻَﻠَﺒُﻮﻩُ ﻭَﻟَـﻜِﻦ ﺷُﺒِّﻪَ ﻟَﻬُﻢْ ﻭَﺇِﻥَّ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺍﺧْﺘَﻠَﻔُﻮﺍْ ﻓِﻴﻪِ ﻟَﻔِﻲ ﺷَﻚٍّ ﻣِّﻨْﻪُ ﻣَﺎ ﻟَﻬُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻦْ ﻋِﻠْﻢٍ ﺇِﻻَّ ﺍﺗِّﺒَﺎﻉَ ﺍﻟﻈَّﻦِّ ﻭَﻣَﺎ ﻗَﺘَﻠُﻮﻩُ ﻳَﻘِﻴﻨًﺎo ﺑَﻞ ﺭَّﻓَﻌَﻪُ ﺍﻟﻠّﻪُ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ﻭَﻛَﺎﻥَ ﺍﻟﻠّﻪُ ﻋَﺰِﻳﺰًﺍ ﺣَﻜِﻴﻤًﺎo ( ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ، 158، 157:4 ) ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﮩﻨﮯ (ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﺩﻋﻮٰﯼ ) ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ( ﺑﮭﯽ) ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﷲ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ، ﻣﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ، ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﻟﯽ ﭼﮍﮬﺎﯾﺎ ﻣﮕﺮ ( ﮨﻮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ) ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ( ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ) ﮨﻢ ﺷﮑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺸﮏ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍﺱ ( ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ) ﺳﮯ ﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﮩﯿﮟ ( ﺣﻘﯿﻘﺖِ ﺣﺎﻝ ﮐﺎ) ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ( ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ) ، ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﯿﺴٰﯽ (ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ) ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻗﺘﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ o ﺑﻠﮑﮧ ﺍﷲ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ( ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ) ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﷲ ﻏﺎﻟﺐ ﺣﮑﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ o ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﺮﺯﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻻﺋﻞ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍٓﭖ ﺍﭘﻨﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﭘﺨﺘﮧ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺮﺍﺿﺎﺕ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻟﮕﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﻭ ﺭﺳﻮﻟﮧ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﻟﺼﻮﺍﺏ۔
سوره 6 آیت 27 تفسیر ابن کثیر
وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں، حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ) 17۔ النمل:14) یعنی فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہرا مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے آیت (وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ) 29۔ العنکبوت:11) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، واللہ اعلم، اب ان کی تمنا ہو گی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہو گی ، چنانچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ، پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ۔ اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں؟ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو ۔ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو ۔