Thursday, March 22, 2018

حضرت داود

داؤد علیہ السّلام معروف خثیت داؤد بن یسّی وجہ وفات طبعی قبراسرائیل والدیسی علاقۂ بعثت فلسطین صحائف زبورآسمانی کتابوں میں
ذکرداؤد)بائبل(آپ بنی اسرائیل کے ایک طاقتور بادشاہ اور نبی تھے۔طالوتکی طرف سے جالوت سے لڑے۔ آپ نےجالوتکو قتل کر دیا اور اللہ نے آپ کو بادشاہی اور نبوت عطا کی۔زبوراللہ نے آپ پرزبورنازل کی۔آوازنہایت پر تاثیر آواز ’’لحن داؤدی‘‘ بخشی اور پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ کے ساتھ تسبیح کریں۔بیٹااللہ نے آپ کے فرزندسلیمان کو ایک خاص علم عطاکیا تھا۔ قرآن نے آپ کو خلیفہ الارض بھی کہا ہے۔ آپ سے قبل یہ اعزاز صرف آدم کو حاصل تھا۔بائبل میں ذکرتفصیلی مضمون کے لیے ملاحظہ کریں:داؤد)بادشاہ(بائبلمیں آپ کے مفصل حالات ملتے ہیں۔ لیکن بائبل کا ڈیوڈ داؤد نہیں ہیں بلکہ وہ صرف ایک بادشاہ تھا۔ گو خدا نے اس سے کلام کیا تھا لیکن عام انسانوں کی طرح اس سے بھی خطا سرزد ہوئی۔ اس نے حتی ادریاہ کی بیوی سے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ اس نے ادریاہ کو جنگ میں جان بوجھ کر مروا دیا اور پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ اس کے اس فعل سے خداوند ناراض ہوا۔ )سموئیل باب 11۔ آیات 2۔27( مسلم مورخین و مفسرین نے بھی داؤد کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں جن کا بیشتر حصہتھوڑے اختلاف کے ساتھ بائبل اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ ان مورخین کے بقول زمانہ 1000ق م تھا۔ آپ اسرائیلی اسباط میں یہودا کی نسل سے تھے۔ باپ کا نام یسا یا یسی تھا۔اسلام و قرآن میں ذکرقرآنمجید کی سورۃ بقرہ، نساء، مائدہ، انعام، اسرا، انبیا اور سبا میں آپ کا ذکر ہے۔بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے تورات نازل کی جا چکی تھی لیکن قوم شریعتِ موسوی کو فراموش کر کے راہ ہدایت سے بھٹک چکی تھی اللہ نے راہِ ہدایت کے لیے زبور نازل فرمائی۔ زبور کے لغوی معنوں میں سے ایک پارے اور ٹکڑے کے ہیں۔ اس کا ایک مطلب شیر بھی ہے۔ زبور تختی یا کتاب لکھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ عربی شاعری میں زبور اور زُبرکتابت، کتاب اور تختی کے معنوں میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو منتخب فرمایااور انھیں زبور کا تحفہ عطا کیا۔ زبور، حمد و ثنائے کبریا سے معمور تھی۔ داؤد علیہ السلام کو ایک معجزہ یہ بھی عطا ہوا تھا کہ آپ مکمل زبور کی تلاوت اتنی مختصر مدت میں کر لیتے تھے کہ جتنی دیر میں گھوڑے پر زین کسی جاتی ہے۔ یوں آپ کا یہ معجزہ حرکتِ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ داؤد علیہ السلام اللہ کے برگزیدہنبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا تھا کہ جب آپ تلاوت فرماتے تو اس لحن کے باعث پرندے و جانور تک وجد میںآجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ترتیل کا حکم عطا کیا تھا، جس کے باعث پہاڑ اور پرندے ان کی خوش الحان قرأت میں آواز سے آواز ملا کر پڑھنے پر مجبور ہو جاتے۔ آپ کی آواز میں وہ نغمگی، مٹھاس اور ایسا زیر و بم تھا کہ شجر و حجر سبھی کو متاثر کرتا تھا۔ ہوا میں اُڑتے ہوئے پرندے رُک جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہاڑ بھی صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرنے پر مامور تھے۔ کائنات کا ہر ذرہ حمد و ثنا کرتا ہے بے شک ہم نہ سمجھ سکیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک رات صحابیِ رسول ابو موسیٰ اشعری تلاوت کلام پاک کر رہے تھے۔ رسول کریمﷺ دیر تک سنتے رہے پھر خوش ہو کر فرمایا کہ آج مجھے لحن داؤد علیہ السلام کا کچھ حصہ مل گیا ہے۔ داؤد علیہ السلا م سے پہلے بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ قائم تھا کہ حکومت ایک خاندان اور نبوت و رسالت کسی دوسرے خاندان سے وابستہ ہوتیتھی۔ داؤد علیہ السلام کے عہد میں یہودا کا گھرانا نبوت اور افراہم کا خاندان حکومت و سلطنت سے سرفراز تھا۔ شمویل کے عہد میں لوٹ مار اور حملہ آوروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ بنی اسرائیل نے آپ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ اپنے بیٹوں کی بجائے کہ وہ شرائط بادشاہت پر پورے نہیں اترتے، کسی اور کو بادشاہ مقرر کر دیجیے، جو ظالموں کا مقابلہ کرنے کی طاقت و قوت رکھتا ہو۔ بنی اسرائیل کے اصرار پر آپ نے طالوت نامی شخص کو بادشاہ مقرر کیا جو بہت بہادر و جری تھا جس نے نہایت سمجھداری سے مجاہدین کا انتخاب کیا جو دشمن سے مقابلہ کے لیے آگے بڑھا۔ ابھی مجاہدین میدانِ جنگ تک نہ پہنچے تھے کہ راستے میں ایک نہر آ گئی۔ گرمی کا موسم تھا،سبھی پیاسے ہو رہے تھے، طالوت نے اپنے مجاہدین کی صبر و برداشت اور ہمت و حوصلہ آزمانے کی خاطر حکم دیا کہ کوئی بھی ایک چلو سے زیادہ پانی نہ پیے۔ چند ایک کے سوا سبھی نے حکم عدولی کی۔’’ پھر جب طالوت فوجیں لے کر باہر نکلا تو اس نے کہا یقیناً اللہ تم کو ایک نہر سے آزمائے گا جس نے اس کا پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جس نے اس کے پانی کو نہ چکھا وہ میرا ہے مگر ہاں جو اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔ پھر ان میں سے سوائے چند کے سب نے اس سے پانی پی لیا۔ ‘‘لشکر میدانِ جنگ پہنچا، وہ جنھوں نے جی بھر کر پانی پیا تھا، خود میں مقابلے کی طاقت نہ پاکر الگ ہو گئے کہ یہاں ان کا مقابلہ جالوت نامی بہت قوی و دیو ہیکل شخص سے تھا۔ لشکر بھی اس کا بہت بڑا تھا۔ طالوت کے مٹھی بھر مجاہدین کو جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی، جالوت اور اس کے لشکر سے خوفزدہ ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے کہا کہ حق باطل پر غالب آتا رہا ہے۔ قلیل مجاہدین نے کفار کی کثیرتعداد پر فتح پائی ہے۔فلسطین کا حکمران جالوت اپنی طاقت اور کثیر لشکر کے زعم میں بنی اسرائیل کو ہر صورت میں غلام بنانے پرتیار تھا۔ طالوت مقابلے کی سکت نہ رکھتا تھا اور پریشان تھا۔ مجلسِ مشاورت بلوائی گئی اور وہاں یہ تجویز منظور کی گئی کہ بنی اسرائیل کا جو جوان جالوت سے مقابلہ کر کے اسے ہلاک کرے گا، اسے نہ صرف نصف سلطنت کا مالک بنا دیا جائے گا بلکہ سردار طالوت اپنی خوبصورت بیٹی عنیاہ کی شادی بھی اس سے کر دیں گے، یہی زمانہ تھا کہ جب بنیشموئیل کو بشارت ہوئی تھی کہ یسیٰ ) طبقاتِ ناصری میں یہ نام انسا اور قصص الانبیا میں ایشا درجہے ( کا چھوٹا بیٹا، طالوت کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کا حکمران ہو گا اور اس سے بڑھ کر ایک اور اعزاز اس کا منتظر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے نبوت کے لیے بھی اسی کو منتخب فرمایا ہے۔داؤد علیہ السلام مستقبل کے اس خوب صورت لیکن ذمہ دار دور سے بے خبر جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چراتے رہے اور ساتھ ساتھ اپنے دل پسند مشغلے میں بھی محو رہے۔  داؤد علیہ السلام فلاخن چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے پاس ہمہ وقت ایک لاٹھی، فلاخن اور ایک تھیلی میں چھوٹےچھوٹے پتھر ہوا کرتے تھے۔  ان کے فن نشانہ بازی میں مہارت کا علم بنی اسرائیل کو بھی تھا، وہ کہا کرتے تھے داؤد علیہ السلام کے فلاخن کا نشانہ بننے والی چیز ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ان کی بہادری کے قصے بھی مشہور تھے یہبات بھی عام تھی کہ وہ جنگل میں شیر پر سواری کیا کرتے تھے۔ایک روز وہ بکریوں کو لے کر جنگل کی طرف جا رہے تھے کہ ایک پتھر سے آواز آئی، اے داؤد میں وہ پتھر ہوں جس سے ہارون علیہ السلام نے اپنے دشمن کو قتل کیا تھا، مجھے اٹھا لیجیے۔میں کسی دن آپ کے بھی کام آؤں گا۔ داؤد علیہ السلام کی حیرت فطری امر تھا، بہرحال وہ پتھر کی فرمائش رد نہ کرسکے اور اسے اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ اسی راستہ پر چند قدمچلے ہوں گے کہ ایک اور پتھر نے صدا دی، میں موسیٰ علیہ السلام کا پتھر ہوں میں وہ پتھر ہوں جس سے انھوں نے اپنے اور اپنے خدا کے دشمن کو ہلاک کیا تھا، مجھے اٹھا لیجیے، کسی روز میری ضرورت آپ کو بھی پڑ سکتی ہے۔ داؤد علیہ السلام حیرت زدہ تھے کہ ایک عرصے سے ان کا جنگل میں آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن کبھی ایسا نہ ہوا جو کچھ آج ہو رہا ہے۔ اسی فکر میں وہ چلےجا رہے تھے کہ ایک اور پتھر کی آواز نے انھیں رکنے پر مجبور کیا۔ اے داؤد علیہ السلام، میں اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا پتھر ہوں، میں ہی وہ پتھر ہوں جس سے آپ جالوت کا خاتمہ کر کے سلطنت ہی نہیں نبوت کے بھی حقدار ہوں گے۔ آپ پر حیرت وا ستعجاب کی کیفیت تو یقیناً طاری تھی لیکن آپ خوف زدہ نہ تھے۔ آپ نے وہ تیسرا پتھر بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میںڈال لیا، ابھی وہ پتھر بقیہ دو پتھروں سے ٹکرایا ہی تھا کہ داؤد علیہ السلام کے دیکھتے ہی دیکھتے تینوں پتھر ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے پتھر کی شکل اختیار کر گئے۔ داؤد علیہ السلام ان معجزوں سے اندازہ لگا چکے تھےکہ اللہ ان کے سپرد کوئی اہم ذمہ داری کرنا چاہتا ہے۔ اس تحیر کی فضا کو قائم ہوئے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ بادشاہ طالوت کی جانب سے کی جانے والی پیش کش کی آواز ان کے کان میں بھی پڑی، منادی کرنے والا ایک ہی اعلان بار بار دہرائے جا رہا تھا۔ اعلان سنتے ہی انھیں پتھروں کی گفتگو یاد آئی اور وہ فوراً ہی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور اسے بتایا کہ میں ہی وہ نوجوان ہوں جو جالوت کو قتل کر کے اس کا سر آپ کے قدموں میں لا رکھے گا، ہاں آپ کو بھی اپنے وعدے کا پاس کرنا ہو گا، داؤد علیہ السلام کے لہجے میں ایسی فیصلہ کن قوت موجود تھی کہ بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے، ضرور کر دکھائے گا۔ اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔ تم جہاد کی تیاری کرو۔بنی اسرائیل اور جالوت کی فوج ایک وادی میں جمع ہو رہی تھی جالوت کا عظیم لشکر اور جنگی ساز و سامان اور گھوڑوں کی تعداد، طالوت کے لشکر کی ہمت پست کرنے کے لیے کافی تھے لیکن طالوت اپنے مجاہدین کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ جالوت، طالوت کے مقابلے میں کم عمر بھی تھا، قد آور بھی اور زبر دست ڈیل ڈول کامالک بھی۔ اس کا سارا جسم پیتل کی ز رہ نے محفوظ کر رکھا تھا، سر پر بھی پیتل ہی کا مضبوط خود پہن رکھا تھا، اس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں ہی کھلی تھیں باقی تمام جسم دھاتوں کے نہ ٹوٹنے والے حصار میں مقید تھا۔ جالوت کے قد و قامت اور لباس کی تفصیل یوں بتائی جاتی ہے۔ ’’ اس کا قد چھ ہاتھ اور ایک بالشت تھا اور اس کے سر پر پیتل کا خود تھا اور وہ پیتل ہی کی زرہ پہنے ہوئے تھا۔ جو تول میں پانچ ہزار پیتل کی مثقال کے برابر تھا اور اس کی ٹانگوں پر پیتل کے دو ساق پوش تھے اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی ایک برچھی تھی۔ اس کے بھالے کی چھڑ ایسی تھی جیسے جولاہے کا شہتیر اور اس کے نیزے کا پھل چھ سو مثقال لوہے کا تھا۔ میدانِ جنگ پہنچ کر جالوت نے للکارا۔’’ کوئی ہے جو میرا مقابلہ کر نے کی جرات کرے اورمجھے ہلاک کر کے اپنے بادشاہ کی طرف سے اعلان کیے گئے انعام کا حقدار ٹھہرے۔‘‘جالوت کا حلیہ اور پھر دبنگ آواز، کسی میں اس للکار کا جواب دینے کی جرات نہ ہوئی۔ جالوت نے چند مرتبہ، اپنی بات دہرائی اور جواب نہ پآ کر اکڑتا ہوا واپس ہوا، یہی وہ لمحہ ہے کہ طالوت کےلشکر میں ہلچل پیدا ہوئی، لشکر کی پچھلی صفوں سے ایک نوجوان، جس کا جسم زرہ سے آزاد اور سر خول سے بے نیاز تھا، سامنے آیا اور جالوت کو للکارا، جالوت اس نوجوان کو دیکھ کر ہنسا، کیا میں کوئی کتا ہوں جو تو ایک لاٹھی لیے میرے مقابل آیا ہے، داؤد علیہ السلام کا جواب یہی تھا کہ ہاں میرے نزدیک تیری حیثیت ایک کتے سے زیادہ نہیں ہے۔ تیرے لیے میری یہ لاٹھی کافی ہے۔ جالوت کا غصے سے پاگل ہو جانا، ان ہونی بات نہ تھی، اس نے بہت برا بھلا کہنا شروع کیا، داؤد علیہ السلام اطمینان سے سنتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ حق کی باطل پر فتح ان ہی کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے، خود پر اعتماد اور اللہ پر یقین نے انھیںجر ات عطا کی، وہ مسکراتے ہوئے جالوت کی جانببڑھتے گئے، خاموشی سے تھیلے سے پتھر نکالا، فلاخن میں رکھا اور مہارت کے ساتھ اس کے ماتھے کا نشانہ لے ڈالا۔خدا کی قدرت سے ہوا کا ایک جھونکا ایسا آیا کہ جالوت کا وزنی خود جس کا وزن اسی سیر اور طبقاتناصری کے مو ء لف و مترجم غلام رسول مہر کے مطابق ساٹھ سیر تھا، ایسے اڑ گیا جیسے ایک سوکھا پتا اڑتا ہے۔ داؤد علیہ السلام کا فلاخن سے پھینکا گیا پتھر فضا میں ہی تین حصوں میں منقسم ہو گیا دو ٹکڑے دائیں بائیں جانب سےنکلے اور تیسرا، عین پیشانی کے درمیان لگا اور پیشانی چیر کر دوسری جانب سے نکل گیا۔ جالوت کے گھوڑے سے گرتے ہی داؤد علیہ السلام نے اس کا سر تن سے جدا کیا اور طالوت کے پاس لے گئے۔ یعنی جالوت کے دعووں کا پول کھلنےمیں لمحہ بھر نہ لگا، فلسطینی فوج اچانک بازی پلٹتے دیکھ کر سراسیمگی کا شکار ہوئی۔ خود بنی اسرائیل بھی نہ جان پائے کہ اس ایک لمحے میں کیا ہو گیا ہے، لیکن جلد ہی معاملے کی تہ تک پہنچ گئے اور ایک نئی قوت کے ساتھ دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور فلسطینیوں کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا۔ طالوت نے اپنا وعدہ نبھایا، آدھی سلطنت عطا کی اور بیٹی کی شادی آپ علیہ السلام سے کر دی۔ تمام بنی اسرائیلداؤد علیہ السلام کی بہادری اور عدل و انصاف کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے۔ حکومت کے نظم و نسق میں بہتری کے لیے انھوں نے کچھ ایسے اصول و ضوابط تشکیل دیے جو مملکت کی مضبوطی اور عوام کی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتے تھے، عوام جان گئے کہ اب انھیں جو حکمران میسر آیا ہے وہ ان کا بہی خواہ ہے۔ داؤد علیہ السلام کی مقبولیت، اعلیٰ انتظامیہ ہی نہیں خود طالوت کی نگاہوں میں بھی کھٹکنے لگی، طالوت نے آپ کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ اس کے اپنے بیٹے یوتن کی وجہ سے ناکام ہو گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کاباپ احسان فراموشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ داؤد علیہ السلام کے علم میں یہ بات آئی تو انھیں بہت افسوس ہوا، ان کی بیوی عنیاہ بھی باپ کی اس حرکت سے شرمندہ تھی۔ اس نے آپ کےدل سے اس افسوس ناک صورت حال کو مٹانے کی کوشش کی، آپ وقتی طور پر راضی ہو گئے لیکن آپ جان چکے تھے کہ یہ سلطنت و بادشاہت آپ کی زندگی کا مقصد نہیں ہو سکتا، ایک روز آپ نے خاموشی کے ساتھ سب کچھ چھوڑ کر گمنامی کی زندگی میں قدم رکھا۔ بنی اسرائیل اپنے بادشاہ کی اس حرکت سے ناراض تھے، طالوت کی بادشاہت ختم ہوئی تو بیٹے یوتن نے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ عنیاہ بھی آپ کی جدائی کے صدمے سے جانبر نہ ہو سکی۔ بنیاسرائیل آپ علیہ السلام کی تلاش میں سرگرداں تھے آخر انھوں نے آپ کو پا لیا۔ ان کے مجبور کرنے پر آپ ان کی سلطنت کی ذمہ داری سنبھالنے پر راضی ہوئے۔ دین اور دنیا کے کارو بار ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انعامات و اکرام بھی ظرف کے مطابق ہی عطا کرتا ہے۔ داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر اللہ کی طرف سے سونپی گئی نبوت و بادشاہت کی ذمہ داریوں اور اس کی عطا کی گئی نعمتوں پر ہمیشہ رب ذوالجلال و الاکرام کے شکر گزار رہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمیشہ مصروفِ عمل رہے۔ آپ کی حکمت و دانائی کے سبب آپ کی سلطنت بہت وسیع ہو گئی تھی۔ آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے آپ کا سلسلۂ نسب گیارہ پشتوں سے ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ داؤدعلیہ السلام کے حلیہ، شکل و صورت اور کردار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت انتہائی مسحور کن تھی، حسین و متناسب خد و خال کی بنا پر، دیکھنے والوں کو بھلے لگتے پھر سرخ و سفید رنگت، نیلی آنکھیں متاثر کرتی تھیں۔ داؤد علیہ السلام علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم کی نو سورتوں میں سولہ مرتبہ آیا ہے بعض مقامات پر مختصراً اور بعض جگہ تفصیل سے ۔ چنانچہ سورہ البقرہ، النسائ، المائدہ، الانعام، الاسرائ، الانبیاء، النمل، السبا اور ص میں آپ کے حالات و واقعاتاور رشد و ہدایت کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ترجمہ:”اور ہم نے اس )داؤد علیہ السلام( کو مضبوط ملک عطا کیا اور حکمت سے نوازا۔ اور حق و باطل کے فیصلے کی قوت عطا کی۔“ترجمہ:”اللہ نے ان کو حکومت بھی عطا کی اور حکمت )نبوت(بھی اپنی مرضی سے جو چاہا سکھایا۔“عام نبیوں اور رسولوں میں آدم علیہ السلام کے علاوہ صرف داؤد علیہ السلام ہی وہ پیغمبر ہیں کہ جنھیں قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔آدم علیہ السلام سے  داؤد علیہ السلام کی ایک نسبت اور بھی ہے۔  ابوہریرہ ؓرقم طراز ہیں :”نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ عالم بالا میں جب آدم علیہ السلام کی صلب سے ان کی ذریت کو نکال کر پیش کیا گیا تو انھوں نے ایک خوبصورت چمکتی ہوئی پیشانی والے شخص کو دیکھ کر دریافت کیا۔ پروردگار یہ کون شخص ہے؟ جواب ملا۔ تمہاری ذریت میں سے بہت بعد میں آنے والی ہستی داؤد علیہ السلام ہے آدم نے عرض کیا اس کی عمر کیا مقرر کی گئی ہے۔ ارشادہوا کہ ساٹھ سال۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا۔ الہٰی میں اپنی عمر کے چالیس سال اس نوجوان کو بخشتا ہوں۔ مگر جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت آ پہنچا تو آدم علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں۔ فرشتہ ء موت نے کہا۔ آپ بھول گئے۔ آپ نے اس قدر حصۂ عمر اپنے ایک بیٹے داؤد علیہ السلام کو بخش دیا ہے۔“یوں داؤد علیہ السلام کی ذات پر، اس دنیا میں آنے سے پیشتر ہی انعامات و اکرام کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور آپ نے خود کو ان نعمتوں کا اہل ثابت کیا۔ آپ کے ذمے رسالت و نبوت اور حکومت وسلطنت ہر دو فرائض تھے۔ نظام حکومت و سلطنت کو درست انداز میں چلانے کے لیے شعور و ادراک کے ساتھ ساتھ شجاعت و جرأت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اوصاف بھی آپکو عطا کیے ہیں آپ کے عہد میں فتوحات کا دائرہبہت وسیع ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ علیہ السلام اللہ کی جانب سے دیے گئے۔ احکامات پر پورے طور سے عمل پیرا رہے کہ خدا کی ہدایت تھی کہ چونکہ ہم نے آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔ اس لیے آپ کا بنیادی کام حق و انصافکے مطابق فیصلہ کرنا ہے اور اس کام کے لیے خواہشات نفسانی کو رد کرتے ہوئے یومِ حساب کوہمیشہ پیش نظر رکھنا ہو گا۔ یعنی امورِ سلطنتکی بجا آوری میں امانت و دیانت کا لحاظ رکھنا اورخدا کا خوف اور آخرت کی فکر رکھنا لازم ٹھہرا۔ جب نظامِ سلطنت خدا کے احکامات کے مطابق چلایا جا رہا ہو، وحی کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو آپ علیہ السلام کی ہیبت، رعب و دبدبہ اور شان و شوکت سے انکار ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کیے گئے فیصلوں سے انحراف کی جرأت جن و بشر میں سےکسی کو نہ تھی۔شہر ایلیا دریا کے کنارے آباد تھا، اللہ تعالیٰ نے وہاں کے رہنے والوں کے صبر کا امتحان لینے کی غرض سے ان پر یہ پابندی لگائی کہ وہ ہفتے کے تمام دن مچھلی کا شکار کرسکتے ہیں سوائے ہفتے کے دن کے۔ شہر والوں کے لیے یہ شرط معمولی تھی لیکن جلد ہی انھیں اندازہ ہو گیا کہ مچھلیاں تو بہت ہوشیار ہیں۔ ہفتے کے چھدن مچھیرے جال لگائے بیٹھے رہتے ہیں، لیکنکسی کے جال یا کانٹے میں ایک مچھلی بھی نہپھنستی۔ اب تو وہ بہت پریشان ہوئے، کھانے کو نہ بیچنے کو مچھلی ہاتھ آتی، ان کی حالت روز بروز بری ہوتی جا رہی تھی۔ آخر شہر ایلیا کے دانا بزرگ سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک حل ڈھونڈ نکالا۔ اب ہر جمعے کی شام وہ ساحل پر گڑھے کھود ڈالتے اور دریا تک نالیاں بنا لیتے۔ ہفتے کے روز مچھلیاں پانی کے ساتھ ان گڑھوںمیں آ کر پھنس جاتیں، ماہی گیر نالیاں بند کر دیتے اور اتوار کو انھیں پکڑ کر کھاتے اور فروخت کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چالیس سال تک یہ نافرمانی کرتے رہے۔ اللہ نے چونکہ انھیں چھوٹ دی ہوئی تھی اس لیے وہ اسے حق سمجھتے رہے، یہاں تک کہ داؤد علیہ السلام کا زمانہ آ پہنچا، آپ نے انھیں روکنے کی بہت کوشش کی، انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا لیکن وہ باز نہ آئے۔”بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی تھی۔“احکامات الٰہی کی نافرمانی، بلکہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش، مقصد صرف ذاتی فائدہ حاصل کرنا تھا، لیکن اس کا انجام کیا ہوا۔”پھر جس کام سے انھیں منع کیا گیا وہ اس کام میں حد سے بڑھ گئے تو ہم نے ان کو کہا کہ تم ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ۔“مچھلی کے گوشت نے ان کے پیٹ میں ایسی اذیتناک صورت پیدا کی کہ ان کی جلد نے بندروں کے کھال کی شکل اختیار کی اور ان کی صورتیں بندروں کی شکل میں بدل گئیں لیکن اس طرح کہ ہر مرد، عورت اور بچہ پہچانا جاتا تھا کہ کون ہے۔ بوڑھے لوگ سور کی شکل میں دکھائی دینے لگے، کہا جاتا ہے کہ یہ پوری قوم تین دن کے اندر اندر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ختم ہوئیایک صفت اور بھی ایسی تھی کہ جس کی تعریف آنحضورﷺ نے خود کی۔ آپﷺ فرماتے ہیں”اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی ہے اور سب سے پسندیدہ روزے داؤد علیہ السلام کے ہیں۔ وہ آدھی رات سوتے، ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہو جاتا تو فرار اختیار نہ فرماتے تھے۔ بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔“عبادت و ریاضت سے لگاؤ اس قدر تھا کہ ان کی شعوری کوشش تھی کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں وہ خود یا ان کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد عبادت میں مشغول رہے۔ یعنی کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے کہ جس میں وہ یا ان کے گھرانے کا کوئی فرد مصروف عبادت نہ ہو۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی نظام الاوقات مرتب کر رکھاتھا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کے دل میں احساسِ فخر جاگا اور اپنی اور اپنے گھرانے کی عبادت گزاری پر خوش ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ توفیقِ عبادت بھی میری ہی عطا کی ہوئی ہے۔ میری مدد شامل نہ ہو تو یہ تیرے بس میں نہیں۔ پھر ایسا ہوا بھی کہ ایک دفعہ جب آپ اپنے نظام الاوقات کے مطابق عبادت میں مصروف تھےاور آپ کے خاندان کے کسی اور فرد کی عبادت کا وقت نہ تھا۔ آپ کی عبادت گاہ میں ناگاہ دو اشخاص دیوار پھاند کر آ گئے۔ آپ گھبرا گئے لیکن انھوں نے کہا کہ ہم اپنے ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں جبکہ میرے پاس صرف ایک ہے۔ یہ زبردستی مجھ سے میری دنبی لینا چاہتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کے لیے تجھ سے مانگتا ہے۔ بے شک ظلم کرتا ہے۔ یہ وقت آپ کی عبادت کا تھا نہ کہعدالت لگانے کا۔ آپ نے صرف مدعی کا بیان سنا اور فیصلہ سنا دیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مقدمہ معمولی نوعیت کا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اسکا کیا فیصلہ ہو گا۔ پھر اتنا اہم بھی نہ تھاکہ فریق دیوار پھاند کر عبادت گاہ میں آ گئے۔ چنانچہ داؤد علیہ السلام جان گئے کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے تھے جو آپ کا امتحان لینے آئے تھے۔ترجمہ:”پس انھوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی اور سجدے میں گر پڑے اور رجوع ہوئے۔“یہاں کا استغفار جو مذکور ہے اس کا پسِ منظر اسرائیلیات کی وضاحتوں میں یہ آیا ہے کہ یہ تمام واقعہ علامتی پس منظر رکھتا ہے،، داؤد علیہ السلام کے دل میں کسی خواہش نے سر اٹھایا جو ایک نبی کے شایانِ شان نہ تھی، اُدھر جب ان کادھیان گیا تو آپ نے توبہ و استغفار کی۔نبی گناہوں سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں پھر بھی استغفار طلب کرتے رہتے ہیں۔ داؤد علیہ السلام بھی خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر اور اس کی عطا کردہ ذمہ داریوں سے احسن طریقوں سے سبکدوش ہونے کو اپنی صلاحیت و طاقت نہیں بتاتے بلکہ اسے بھی خدا کا انعام اور اس کی مدد تصور کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ استغفار پسندیدہ عمل ہے اس لیے سر بسجود ہو کر مغفرت طلب کرتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان فیصلے کی قوت کو بھی اس کی عطا جانتے ہیں۔”اے داؤد علیہ السلا م ہم نے مقرر کیا ہے آپ کو نائب زمین میں پس فیصلہ کرو لوگوںکے درمیان انصاف کے ساتھ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکادے گی تمھیں راہِ خدا سے۔ بے شک جو لوگ بھٹک جاتے ہیں راہِ خدا سے ان کے لیے سخت عذاب ہے…“یہاں داؤد علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کسی شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے کہ یہ سلطنت تمھیں ورثے میں مل گئی ہے۔ یہ اللہکا فضل و کرم ہے، اس کا شکر ادا کرنے کا طریقہیہ ہے کہ تم رعایا کے فیصلے عدل و انصاف کے مطابق کرو۔ایک مرتبہ دو اشخاص ایک بیل پر حقِ ملکیت کا مقدمہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فیصلے کے لیے دوسرے دن انھیں طلب کیا۔ رات کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویٰ دار کو قتل کر دیا جائے۔ صبح جب دونوں حاضر ہوئے تو آپ نے مدعی کو قتل کا حکم سنا دیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ بیل بھی میرا اور سزائے موت بھی مجھے ہی سنائی جا رہی ہے۔ بہرحال وہ جان گیاکہ داؤد علیہ السلام کو وحی کے ذریعے اصل واقعے کا علم ہو چکا ہے چنانچہ اسے صحیح بات بتانا ہیپڑی کہ آج رات میں نے مدعی علیہ کے باپ کو دھوکے سے قتل کر دیا۔ پس اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے، چنانچہ داؤدعلیہ السلام نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل کے ہر شخص پر آپ کی ہیبت اور بڑھ گئی کہ سبھی پہلے ہی آپ کی فراست اور عقل و شعور کے قائل تھے۔ترجمہ:”اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیاتھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کافیصلہ کرنا“ترجمہ:”اور بے شک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور ہم نے داؤدعلیہ السلام کو زبور بخشی“پیغمبروں کی شان رہی ہے کہ وہ بیت المال سے اپنی خدمات کا معاوضہ یا وظیفہ لینا جائز ہونے کےباوجود مناسب نہیں سمجھتے۔ آپ نے اللہ سے کسبِ حلال کی درخواست کی کہ اے اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی ایسا ذریعہ بنا کہ جس میں، میں اپنے ہاتھکی کمائی سے رزق حلال حاصل کر سکوں اور دیگر فرائض منصبی زیادہ توجہ کے ساتھ ادا کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا قبول فرمائی اور آپ کے لیے آسانیاں پیدا کر دیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ داؤد علیہ السلام بھیس بدل کر رعایا سے ملتے اور ان سے ان کے حاکم کے متعلق سوال کیا کرتے کہ انکا بادشاہ کیسا انسان ہے۔ اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا ہے یا نہیں۔ عوام اپنے بادشاہ کی تعریفیں کرتے۔ ایک روز ایسا ہوا کہ آپ کے سوال کے جواب میں ایک آدمی نے اور دوسری روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ایک فرشتے نے جو انسان کی شکل میں تھا، جواب دیا کہ انسان تو اچھا ہے لیکن ایک خامی ہے۔ خامی پوچھی گئی۔ جوا ب ملا، اپنا اور اہل خانہ کا بوجھبیت المال پر ڈالے ہوئے ہے، وہیں سے اپنی تمام ضروریات پوری کرتا ہے۔ داؤد علیہ السلام کے جی کو یہ بات لگی۔ گریہ و زاری اور استغفار کے دوران میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ مجھے کوئی ایسا ہنر سکھا دے کہ میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں اور پھر اللہ نے اپنا کرم ایک معجزے کی صورت میں ظاہر کیا۔ترجمہ:”اور ہم نے داؤد علیہ السلام علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا۔ بنا زرہیں کشادہ اور اندازہ سے جوڑ کڑیاں اور تم جو کچھ کرتے ہو، میں اس کو دیکھتا ہوں۔“آلاتِ حرب کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے۔ لوہا اسصنعت کا بنیادی جزو ہے۔ انھیں سامانِ جنگ تیار کرنے کا علم بھی عطا کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ زرہ کے موجد داؤد علیہ السلام ہی تھے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ داؤد علیہ السلام صاحب اعجاز تھے کیونکہ زرہ بنانے کے فن کی نعمت انھیں اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی تھی۔ جیسا کہ نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کی صنعت وحی کے ذریعے سکھائی گئی تھی۔ داؤد علیہ السلام کواس لوہے کو بھٹی میں گرم کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اللہ نے ان کے لیے لوہے کو اتنا نرم کر دیا کہ جتنا چاہتے اس کھینچ لیتے، جہاں ضرورت ہوتی موڑ لیتے۔یہ فضیلت بھی انھیں حاصل تھی کہ اتنی باریک نازک لیکن مضبوط اور پائدار ایک تناسب کے ساتھ کڑیاں جوڑ کر ز رہیں بنائیں کہ جنھیں پہن کر سپاہی نہایت آسانی سے میدانِ جنگ میں اپنے فرائض انجام دے لیتا اور دشمن کے وار سے محفوظ رہتا۔ داؤد علیہ السلام دن میں ایک زرہ بناتے جو چھ ہزار میں فروخت ہو جاتی، دو ہزار اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رکھ لیتے اور باقی چار ہزار مستحقین میں تقسیم کر دیتے۔یوں داؤد علیہ السلام نے اتنی عظیم الشان سلطنت کے ہوتے ہوئے بھی بیت المال سے اپنی خدماتکا معاوضہ لینے کا حق رکھنے کے باوجود محنتو مزدوری سے اپنا گزارا کیا اور اسی پر قانع رہے۔قرآنِ حکیم میں ’’ صاحبِ قوت‘‘ کا لقب، ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کے لیے برتا گیا ہے، داؤد علیہ السلام کے لیے بھی یہی لقب استعمال کیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قوتوں سے کون سی قوتیں مراد ہیں۔ اس کا جواب یوں ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد جسمانی قوت ہے کہ جس کا مظاہرہ انھوں نے جنگِ جالوت کے دوران میں کیا تھا، قوتِ فیصلہ بھی مراد ہو سکتی ہے اور قوتِ گفتار بھی کہ آپ فیصلہ کن تقریر کیا کرتے تھے، فوجی و سیاسی قوت بھی ہوسکتی ہے کہ جس کی بنا پر آپ نے مشرکین پر فتح پائی اور عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی دطن فلسطین کو بھی آزاد کروایا، اخلاقی طاقت بھیاس میں شامل ہو سکتی ہے کہ جس کی بنا پر آپ نے عظیم الشان سلطنت ہوتے ہوئے بھی اپنےلیے ہاتھ کی کمائی پر انحصار کیا روحانی قوت بھی مراد ہو سکتی ہے کہ انسانوں کے علاوہ جنبھی آپ کے تابع تھے۔ عبادت کی طاقت اور حوصلہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ شدید مصروفیتکے عالم میں بھی آپ ایک دن روزہ رکھتے ایک دنافطار کرتے اور ایک تہائی رات عبادت کے لیے وقفتھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ میں ابو دردا ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے حضور پاکﷺ فرمایا کرتے تھے کہ داؤد علیہ السلام انسانوں میں سب سے بڑے عبادت گزار بندے تھے۔آپ سو سال تک بنی اسرائیل کی رشد و ہدایت میں مصروف رہے۔ بنی اسرائیل پر حکومت کی مدت بعض مقامات پر چالیس سال اور بعض جگہ ستر سال رقم ہے۔’’اور داؤد علیہ السلام بن ایش نے سارے اسرائیل پر سلطنت کی اور وہ عرصہ جس میں اس نے اسرائیل پر سلطنت کی چالیس برس کا تھا۔ اس نے جبرون میں سات برس اور یروشلم میں پینتیس برس سلطنت کی اور اس نے بڑھاپے میں خوب عمر رسیدہ ہو کر اور دولت و عزت سے وفات پائی‘‘داؤد علیہ السلام کی اصل عمر ایک سو ستر سال تھی۔ داؤد علیہ السلام جب گھر سے باہر جاتے تودروازے بند کر جاتے اور کوئی بغیر اجازت گھر میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔ ایک روز آپ باہر تشریف لے گئے۔ اچانک ان کی ایک زوجہ محترمہ نے دیکھا کہ گھر کے درمیان ایک صاحب کھڑے ہیں، حیران ہوئیں، دیگر اہل خانہ کو بلایا۔ اتنے میں  داؤد علیہ السلام باہر تشریف لائے۔ اجنبی کو گھر میں بلا اجازت کھڑے دیکھا تو پوچھا کہ تم کون ہو اور بند دروازے سے کیسے اندر آ گئے۔ اس نے کہا جب مجھے آنا ہوتا ہے تو کوئی دروازہ، کوئی رکاوٹ نہیں رہتی اور نہ ہی کسی کا بلند رتبہ میرے پیش نظر ہوتا ہے۔  داؤد علیہ السلام جان گئے کہ ملک الموت آن پہنچا ہے اور یہی وقت مرگ انکے نصیب میں لکھا ہے۔ یہ بہت مبارک ہفتے کا دن تھا۔ آپ نے جان، جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ سورج نکل آیا۔ دھوپ آپ علیہ السلام کے جسدِ خاکی پر آگئی تو  سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کو حکم دیا کہ سایہ کر دیں۔ تمام پرندوں نے اس طرح پر پھیلائے کہ چھاؤں ہو گئی بلکہ اندھیرا محسوس ہونے لگا۔ عام لوگوں علاوہ چالیس ہزار راہب آپ کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔ آپ علیہ السلام کا مدفن صہیون میں ہے، جہاں آپ کے آبا و اجداد بھی مدفونہیں۔]1[داؤد علیہ السلام کا ذریعہ معاشداؤد علیہ السلام نے باوجود یہ کہ ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ تھے مگر ساری عمر وہ اپنے ہاتھ کی دستکاری کی کمائی سے اپنے خور و نوش کا سامان کرتے رہے۔ اللہ  نے آپ کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجایا کرتا تھا اور آپ اس سے ز رہیں بنایا کرتے تھے اور ان کو فروخت کر کے اس رقم کو اپنا ذریعہ معاش بنائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو پرندوں کی بولی سکھا دی تھی۔]2[طالوتآپ کے عہد میں طالوت ’’بائبل کا ساؤل‘‘ بنی اسرائیل کا ایک نیک شخص تھا جسےسموئیل’’بائبل کے سموئیل‘‘ نےبنی اسرائیلکا بادشاہ مقرر کیا۔ جبفلسطینکے ایک جابر بادشاہ جالوت’’بائبل کا گولیتھ‘‘ نےطالوتپر حملہ کیا تو داؤد نے طالوت کی جانب سے لڑے اور گھوپن سے جالوت کو مار ڈالا۔ طالوت نے اعلان کیا تھا کہ جوشخص جالوت کو قتل کرے گا وہ میری بیٹی اور ایکتہائی سلطنت کا حقدار ہوگا۔ اس قول کے مطابقداؤد طالوت کے داماد اور شریک سلطنت بن گئے، لیکن کچھ عرصے بعد طالوت بھی آپ س حسد کرنے لگا اور آپ کے قتل کے درپے ہوا۔وفاتداؤد اپنی بیوی کی ایما پر شہر سے نکل گئے اور ایک غار میں پناہ لی جس کے منہ پر مکڑی نے جالا تن دیا۔ بعض مورخین کے بقول آپ جالوت کو قتل کرکے اور بعض کے بقول اس کی طبعی موت کے بعد بادشاہ بنے۔ آپ نے یروشلم میں اپنے ہیکل کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند  سلیمان کے عہد میں تکمیل کو پہنچا۔ بائبل کے بیان کے مطابق آپ نے بنی اسرائیل پر چالیس برس حکومت کی اور کہن سالی میں وفات پاکر آپ اسرائیل کے شہر صیہون میں دفن ہوئے۔