Tuesday, November 21, 2017

تصوف کا تاریخ ۔“ جب یہ تجدید کا چلہ ختم ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں روح عنایت فرمائی اور عقل و دانش کا چراغ اس کے دل میں روشن کیا ۔ پھر کائنات نے دیکھا کہ کائنات کے پہلے صوفی کو دل سے زبان تک باتیں آنے لگیں کہ منہ سے انوار واسرار کے پھول جھڑنے لگے ۔جب آپ نے اپنا یہ رنگ دیکھا تو مستی سے جھوم گئے اور خدا کا شکر و احسان بجالائے ۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا”جس نے خلوص سے دل سے 40دن خدا کے لئے خاص کر دئےے اللہ تعالیٰ اس کی زبان اور دل سے حکمت کےچشمے جاری فرمائے گا۔صوفیوں کا یہ بھی معمو ل ہے کہ کسی خاص جگہ پر بیٹھ کر آپس میں مل جل کر راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔چنانچہ دنیا کے پہلے صوفی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اس خلوت در انجمن کے لئے خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی ۔یعنی دنیا میں پہلی خانقاہ کعبہ معظمہ ہے ۔اس سے پہلے کسی خانقاہ کا وجود نہ تھا ۔خرقہ اور خانقاہ کی اصل حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے قائم ہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام نے دنیا میں صرف ایک کمبل پر اکتفا کیا جو ان کو عنایت فرمایا تھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمیشہ جامہ صوف پہنا کرتے تھے ۔پھر جب دور مبارک حضرت محمد ﷺ آیا تو سرکار دو عالم علیہ السلام نے بھی اسی طرح کمبل اختیار فرمایا اور اسی خانقاہ کعبہ شریف کا قصد فرمایا علاوہ اس کے خود مسجد نبوی شریف میں ایک گوشہ معین فرما دیا ۔اصحاب میں وہ گروہ جو سالکان راہ طریقت تھا اسی گوشہ میں ان سے راز و نیاز کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔اس خاص جماعت صوفیہ کے لوگ قریباً 70اشخاص تھے سرکار مدینہ ﷺ کا یہبھی معمول تھا کہ جب کسی صحابی کی عزت و تکریم فرماتے تو ان کو ردائے مبارک یا اپنا پیراہن شریف عنایت فرماتے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہممیں وہ شخص”صوفی“ سمجھا کاجاتا تھا۔اب تو آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ تصوف کی ابتداءحضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کو بام عروج تک امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی ﷺنے پہنچایا ۔اس فیضان تصوف کو پوری دنیا میں پہنچایا گیا ۔عرب و عجم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئےصوفی ازم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔یہ خوش بختی و خوش نصیبی بر صغیر میں سب سے زیادہ ہمارے حصہ میں آئی کہ اس سر زمین کے سینے پر خانقاہیں ہیں ۔کٹائیں، گھاس ،پھوس کی جھونپڑیاں اور درویشوں ، فقیروں کے ڈیرے آباد ہوئے ۔ا ن سفیران محبت میں خواجہ عبد الخالق اویسی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت داتا علی ہجویری، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ،حضرت بابا فرید،خواجہ محکم الدین سیرانی،حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی، حضرت سلطان باہو ،بابا بلھے شاہ، حضرت لال حسین ،بدرالمشائخ پیر سائیں محمد سائیں اسلم اویسی اور میاں محمد بخش)رحمة اللہعلیہم ( جیسے صوفیاءکرام نے اس سر زمین کو علم و آگہی ،معرفت و طریقت ،فقر ، مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی ایسی لازوال خوشبو سے مہکادیا کہ آج تک یہ دھرتی ان خوشبوﺅں سے سرفراز ہے اور مسلسل مہک رہی ہے ۔صوفی ازم و تصوف کی بدولت یہاں کے باسیوں میں درویشی سوز و گداز ،رواداری اور انسان دوستی تہذیب و تمدن بن کر ہمارے رہنسہن کی سب سے بڑی شناخت بن چکی ہے ۔مگر اس کے باوجود ہم ابھی تک تصوف کی ایک جامع تعریف کے متلاشی ہیں ایسی تعریف جو ہماری ہتھیلیوں پر ایسے چراغ روشن کر دے جس کے ذریعے ہم نامعلوم کی تاریک دنیا میں داخل ہو سکیں ۔سلوک کی منازل کا مشاہدہ کر سکیں ۔صوفیاءکے افکار میں پیغمبرانہ گہرائی کو محسوس کر سکیں ۔حضرت شاہ شمس تبریز نے تصوف ہیکی تلوار سے مولانا روم رحمة اللہ علیہ کے عالمانہ زعم کو دو ٹکڑے کر دیا اور رومی رحمة اللہ علیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تصوف کی ازلی روشنی کا حصہ بنگیا اور عشق کی سر مستی رومی کے روم روم میں سما گئی ۔صوفیاءکرام کی روحانی کائنات کے سبھی منطقے توحید و رسالت کے مدار پر طواف کرتے نظر آتے ہیں جب بر صغیر میں بھگتی تحریک نے زور پکڑا ۔بھگت کبیر ۔میرابائی یا گرو نانک جیسیشخصیات کی اجتہادی ذکاوتوں نے تصوف کی ہندوستانی شکل میں عمومی سماجی زندگی پر برق رفتاری سے اثرات مرتب کرنا شروع کےے اور تصوف ایک نئی صورت میں عوامی تحریک بن کر ابھر نے لگا تو مسلمان صوفی شعراء نے مسئلہ وحدت الوجود کا سہارا لے کراس طوفان بلا خیز کے سامنے ایک بند باندھ دیا ۔مسئلہ ہمہ اوست نے خدا، انسان اور مظاہر فطرت کو ہم رشتہ کیا۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے عظیم منصب او رامتیاز کو ایسی فوقیت عطا کی کہ نامرادی ،سیاسی ،سماجی جبر،بے بسی اور لاچاری کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں میں اپنی اہمیت اور فضلیت کی لوجل اٹھی ۔خدا اور اس کے بندے سے پیار کا پرچار صوفیاءکیشاعری و تعلیمات کا سب سے مقبول ترین موضوع بنا ۔کیونکہ تصوف براہ راست محبت کا مذہب ہے ۔ یہ دل اور روح کی طرف جانے والا سیدھا راستہ ہے ۔اسلئے انسان کے دل تک رسائی ضروری تھی ۔انسان کو خود شناسی اور اعتماد کی دولت سے سرفراز کرنا تھا ۔اسی لئے صوفیاءکرام نے اپنے افکار و اشعار میں سب سے زیادہ انسان کو مخاطب کیا ہے ۔کیونکہ کائنات کا حسن بھی انسانسے ہے اور خدا کی لازوال محبت کا مقصود بھی انسان ہی ہے ۔انسان ہی حق تعالیٰ کی صفات کا مظہر اورحکمت و دانش، عشق و سرمستی ،نامعلوم کی جستجو اسی کی سر شت میں شامل ہے ۔جب خود شناسی و خود آگہی کی منزل انسان طے کر لے تو دست نگر رہنے کی بجائے وہ دستگیری کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔معرفت ذات کے ساتھ اسے معرفت خدا بھی حاصل ہو جاتی ہے کل جہاں اس کی دسترس میں ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ درس عظیم تھا جو صوفیاءکرام نے قوانین اسلام کے مطابق یہاں بسنے والے ہر انسان کو دیا جس سے ان کے دلوں میں خود شناسی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ۔اس سر زمین کی فضاﺅں میں صوفیاءنے جذب و مستی ،فقر و درویشی ،محبت و عاجزی ،ایثار و تعظیم ،قناعت و خوشی اور ازلی و ابدی صداقتوں کی ہر سو روشنی بکھیر دی۔مذکورہ بالاسطور سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تصوف خلاف اسلام نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے ۔تصوف کسی خاص طبقے کی میراث ہی نہیں بلکہ تصوف کا رشتہ عوام سے بھی بڑا گہرا ہے ۔تصوف کا تعلق براہ راست ایمان اور وجدان سے ہے ۔تصوف کے بنیادی مطالب مشرق و مغرب میں کم و بیش یکساں ہیں ۔جن میں اصل ہستی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب کا رب ہے جو بے امتیاز کافر و مومن کو رزق دیتا ہے ۔خدا تک پہنچنے کےلئے تصوف کی راہاور صوفی ازم کو اختیار کرنا چاہےے ۔جو انسان کوشکوک و شبہات کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان خطوں میں لے آتا ہے جہاں رحم و شفقت کی کرنیں سب پریکساں پڑتی ہے ۔تصوف کے راستہ پر چلنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک و صاف کرے اور شریعت اسلامیہ کا پابند ہو ۔صوفی ازم اور تصوف کی منزلیں ایسی دشوار گزاہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک ہادی و رہبر کی ضرورت پڑتی ہے ۔جس کو پیر و مرشد کہتے ہیں ۔اصطلاح صوفیاءمیں جب انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے تو وہ مختلف منزلوں سے گزرنے کے بعد وجد اور استغراق کے مرحلوں سے گزر کر ذات الہٰی کا قرب حاصل کر لیتا ہے ۔یہ بڑا بلند مقام ہے اور اسے فنافی اللہ کہتے ہیں اور بعض صوفی مدعی ہیں کہ اس کے بعد بھی ایک مقام ہے جس مقام بقاءکہتے ہیں ۔نکلس نے کہا تھا”تصوف صوفیائے کرام کا مذہب ہے جس میں تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کر کے قلب کی صفائی کی جاتی ہے اور صوفی پر ہیز گار بھی ہوتا ہے وہ غیر حق کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے ۔ایک محقق کا خیال ہے کہ تصوف در اصل نام ہے واقعات قلبی اور جذبات روحانی کا جس کا محرک ہمیشہ عشق ہوتا ہے اور عشق ایک جذبہ محترم ہے جس کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا:عشق کے مضراب سے نغمہ تارحیات عشق سے نور حیات عشق سے نارحیاتمگر اسرارو معارف اور فلسفہ و حکمت کے رموز کو صوفیاءعشق کی گہرائی میںیوں دیکھتے ہیں ۔صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشقکسی شاعر نے عشق کو انسانی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہاتم نہ مانو مگر حقیقت ہے عشق انسان کی ضرورت ہےصوفی شاعر خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا محور و مرکز عشق ہی کو قرار دیتے ہوئے فرمایا۔عشق ہے ہادی پریم نگرکا عشق ہے رہبر راہ فقر کایہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاءکرام نے اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے سینوں میںحرارت بخشی اور غافل انسانوں کو ایک خدا، ایک رسول ، ایک قرآن اور ایک کعبہ کی طرف بلایا ۔ ´انہیں اخوت و محبت کا درس عام دیا اور خود شناسی کو خدا شناسی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔بعض صاحب عقل حضرات نے کہا ”صوفی با صفا وہی ہوتے ہیں جو دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں اور معبود کی محبت کو زندگی کا قرینہ بنالیں ۔“مذکورہ بالا تمام تحریر کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ تصوف اور صوفی ازم اسلام سے متصادم نہیں بلکہ اسلام ہی کا حصہ ہے ۔صوفی ازم عالمی امن کا ضامن اور احترام انسانیت کا علمبردار ہے ۔صوفی ازم میں علاقائی ،نسلی، لسانی اوررنگ کی تفریق کو پس پشت ڈال کر وحدت ملت کا درس ہے ۔صوفی ازم و تصوف بے سکوں انسانیت کے لئے شجر سایہ دار ہے ۔آج دنیا میں جو مسائل ایٹم بم اور اسلحہ سے حل نہیں ہو رہے تعلیمات صوفیہ میں ان کا بہترین مکمل اور شافی حل موجود ہے ۔”تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جس میں اسلام کے کلچر کو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مغلوب نہ ہو سکا کیونکہ ٹھیک اسی دم صوفیا کا گروہ اس کی مدد کو آجاتا اوراپنے انداز فکر سے اس ”تن بیمار“ میں اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ ساری طاقتیں اس کے سامنے عاجز آجاتی تھیں ۔“مولف تاریخ سلسلہ فردوسیہ نے تاریخ تصوف کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے اور قدرے تفصیل سے اس کے اہم پہلوﺅں پر روشنی ڈالی ہے ۔پہلے طبقہ کے صوفیاءکر دور 661ءسے 850ءتک متعین کیا جا سکتا ہے ۔اس طبقہ کے چند اہم صوفیا کے اسما گرامی یہ ہےں۔ حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضیاللہ عنہ ، حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ، حضرت مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ ،حضرت محمد واسع رحمة اللہ علیہ ، حضرتحبیب عجمی رحمة اللہ ع

Saturday, November 4, 2017

ادکار ندیم

ندیم بیگپاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام مرزا نذیر بیگ کا ہے جسے دنیا ندیم کے نام سے جانتی ہے۔ندیم 19جولائی 1941ء میں مدراس کے شہرVijayawada)وجایاودا( میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا محمود بیگ تھا۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میںآباد ہوا۔ ندیم نے اسلامیہ کالج کراچی سے بی اے کیا۔ندیم نے سب سے پہلے گلوکارہ فردوسی بیگم کے مشورے پر نثار بزمی کی موسیقی میں فلم ’’سہرا‘‘ میں گلوکاری کی لیکن وہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔ انہی دنوں ہدایت کار کیپٹن احتشام نے ہنگامی طور پر اپنی فلم’’چکوری‘‘ میں ندیم کو بطور ہیرو کاسٹ کر لیا اور یہیں سے ان کی کامیابی کا آغاز ہو گیا۔’’چکوری‘‘ میں ان کے مقابل ہیروئین شبانہ تھیں۔ یہ فلم 19مئی 1967ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ندیم کی آواز میں فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا بھی شامل تھاجو بہت مقبول ہوا۔ )کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں(’’چکوری‘‘ کی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بےپناہ کامیابی کے بعد ایک طرف ندیم پر فلموں کے دروازے کھل گئے تو دوسری کیپٹن احتشام نے اپنی بیٹی کارشتہ ندیم کے ساتھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس طرح 8فروری 1950ء کو پیدا ہونے والی کیپٹن احتشام کی بیٹی فرزانہ مورخہ 29ستمبر 1969ء کو ندیم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ندیم نے فلمی دنیا پر 40سال تک راج کیا۔ اس دوران انہوں نے دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں 24فلمیں ڈائمنڈ جوبلی تھیں۔ ان فلموں میں نادان، اناڑی،پہچان، تلاش، آئینہ، ہم دونوں، لاجواب، قربانی، سنگدل، دہلیز وغیرہ شامل تھیں۔جبکہ دس فلموں چکوری، دل لگی، امبر، زندگی، پاکیزہ، بندش، میاں بیوی راضی، کامیابی، جیوا اور دیوانے تیرے پیار کے نے پلاٹیننم جوبلی کا سہرا سجایا اور لاتعداد فلمیں گولڈن جوبلی ہوئیں۔ندیم کی سب سے کامیاب اور بین الاقوامی شہرت کی حامل فلم ’’آئینہ‘‘ ہے جس میں ان کے ساتھ شبنم کی اداکاری کو لازوال شہرت ملی۔ یہ فلم 18مارچ 1977ء کو ریلیز ہوئی اور اس نے پورے پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے، خصوصاً کراچی کے اسکالا سینما میں مسلسل پانچ سال نمائش پذیر رہ کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔اس فلم کو 12نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ندیم کی دیگر چند مشہور فلموں میں بہن بھائی، آنسو، دامن اور چنگاری، سماج، انتظار، شمع، زینت، جب جب پھول کھلے، پرنس، پلے بوائے، بدلتے موسم، مہندیلگی میرے ہاتھ، دلنشیں، خوبصورت، آہٹ، لازوال، دیوانے دو، فیصلہ، بازار حسن، بلندی، مہربانی، قاتل کی تلاش، آوارگی وغیرہ شامل ہیں۔ندیم کو ان کے فن پر 19نگار ایوارڈ ملے۔ اس کے علاوہ 1991ء میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2000ء میں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ سےبھی نوازا گیا۔ مزید برآں انہیں ہلال امتیاز اور ستارئہ امتیاز کا اعزاز بھی ملا۔ندیم نے ایک پنجابی فلم ’’مکھڑا‘‘ بنائی جس میں انہوں نے بابرہ شریف کے مقابل ہیرو کا کردار بھی ادا کیا۔ یہ ان کی پہلی پنجابی فلم تھی۔مکھڑا اور دیگر چار فلموں کو نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ندیم نے اپنے دور کی تقریباً ہر ہیروئین کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی سب سے زیادہ فلمیں شبنم کے ساتھ ہیں اور بہت طویل عرصہ تک ندیم اور شبنم کی جوڑی فلموںکی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی رہی۔بھارت میں سب سے زیادہ ندیم کی کامیاب فلموں کا چربہ بنایا گیا جن میں آئینہ )پیار جھکتا نہیں(، دہلیز)اونچے لوگ(، مہربانی )الگ الگ(، آنسو )مظلوم(، سنگدل)جھوٹا سچ(، لازوال )جانباز، ضدی لڑکا(، فیصلہ )پاپ کی دنیا(، قربانی )ادھیکار(، دل لگی )جھوٹا کہیں کا(، بازار حسن )پتی پتنی اور طوائف(، استادوں کے استاد )انداز اپنا اپنا( شامل ہیں۔ لیکن ان تمام فلموں میں بھارت کا کوئی بھی ہیرو ندیم کا مقابلہ نہ کر سکا اور یہ بھارتی فلمیں زیادہ تر ناکام ہو گئیں۔ندیم نے گلوکاری کے میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا اور متعدد فلموں میں پلے بیک سنگر کے طور پر گانے گائے جن میں چند یہ ہیں۔٭ کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں)چکوری( دوگانا ہمراہ فردوسی بیگم٭ پیار کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے یارو )دل لگی(٭ اور حسیں بھی دیکھے ہوں گے میری بات نرالی )دو بدن( دوگانا ہمراہ نیرہ نور٭ لکھے پڑے ہوتے اگر تو تم کو خط لکھتے )اناڑی(٭منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا نہیں شرماں دا گھنڈ لاہی دا)مکھڑا( دوگانا ہمراہ نورجہاںندیم بیگ آج کل ٹی وی چینلز پر بہت متحرک نظر آ رہے ہیں اور فلموں کے بعد انہوں نے اس فیلڈ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوا لیا ہے۔ ان کے چند ٹی وی ڈراموںکےنام یہ ہیں۔ بساط، چلتے چلتے، چہرے، محبت کا ایک پھیر،ہار جیت، راکھ میں چنگاری، فرصت، مسافر خانہ۔

دیم بارن 19-07-1941 ڈائمنڈ جوبلی 1نادان 1973اناڑی 1975 پہچان 1975تلاش1976آئینہ1977ہمدونوں1980لاجواب1981قربانی1981سنگدل1982دہلیز1983

Wednesday, November 1, 2017

قرانی معلومات

قرانی معلومات قران پاک میں کل26 انبیاء علیھم السلام کا ذکر آیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سب سے زیادہ آیا ہے.قران پاک کے پہلے حافظ حضرت عثمان غنیؓ تھے.قران مجید کا دل ےٰسین ہے.اور عروس القران سورۃ الرحمن ہے.چھ انبیاء کے نام سے سورتیں ہیں. سورۃ یونسؑ ، سورۃ ھود، سورۃ یوسف، سورۃ ابراہیم، سورۃ محمد، سورۃ نوح علیھم السلام. قران مجید کی کل114سورتیں ہیں.ان میں مکی کی تعداد 87ہے.اور مدنی کی تعداد 27ہے.کل سات جگہیں ہیں جہاں سورۃ اور پارہ اکٹھے شروع ہو چکے ہیں.سورۃکا لفظ کل سات جگہ استعمال ہوا ہے.قران میں 12جگہ امام کا لفظ آیا ہے.700جگہ نما ز کی تاکید کی گئی ہے.150جگہ خیرات کی تاکید کی گئی ہے.70سے زائد مقامات پر دعا مانگنےکی تاکید کی گئی ہے.رحمت عالمﷺ کو 11مرتبہ یاایھا النبی سے مخاطب فرمایا ہے.سب سے پہلے کاتب وحی خالد بن سعید بن ابی العاص ہیں۔سب سے آخری وحی ابی بن کعب نے لکھی ہے اس کے بعد وحی بند ہو گئی.کاتبین وحی کی تعداد26تھی.ان میں خلفاء اربعہ بھی تھے.امام حلبی نے لکھا ہے کہ رسول پاک ﷺ کے زمانے میں چار حضرات نے قرآن پاک کو سینوں میں جمع کیا تھا.ابی بن کعب،معاذبن جبل،زید بن ثابت،ابو زید رضی اللہ عنھم.قرآن مجید کی سب سے پہلی تفسیر ابی بن کعبؓ کی ہے.پھر بعد میں ابن عباسؓ کی ہے.پوری سورۃ جو ایک دفعہ اکھٹی نازل ہوئی تھی.وہ و المرسلات ہے.سورۃ انعام کی بھی روایت ہے.مگر وہ روایت ضعیف ہے.)الاتقان(قران پاک کی مدت نزول 22سال 5ماہ14دن تقریباََ ہے.لفظی اور تحریری طور پر سب سے طویل کلمہ فاسقینا کموہ ہے..تین سورتوں کو بددعا سے شروع کیا ہے.)تطفیف،ھمزہ،لھب(.پندرہ سورتوں کو قسم سے شروع کیا ہے.29سورتوں کو حروف تہجی سے شروع کیاہے.سورتوں کے لحظ سے الحدید تک نصف اول اور مجادلہسے نصف آخر ہے.سات سورتوں کا آغاز سبح اور سبحان سے ہوا ہے.سب سے طویل سور ۃ بقرۃ ہے.مکمل رکوع جو صرف ایک آیت پر مشتمل ہے و ہ سورۃ مزمل کا دوسرا رکوع ہے.مجاہد سے سوال ہوا.کہ اِلا غرورا کتنی مرتبہ آیا ہے .فرمایا چار مرتبہ.نساء ،اسراء ،احزاب اور فاطرمیں.امام کسائی سے سوال ہوا کتنی ایسی آیات ہیں جن کے شروع میں ش آتا ہے.فرمایا چار آیات.شھر رمضان.شھداللہ،شاکراََلانعمہ،شرع لکم فی الدین.پھر آپ سے سوال ہوا کہ وہ کتنی آیات ہیں جن کے آخر میں ش ہے.فرمایا دو آیات.کاالعھن المنفوش.لایلٰف قریش.مسلسل آٹھ متحرک حروف کونسے ہیں؟ انی رأیت احد عشر کو کبا.مسلسل ۱۱ متحرک حروف؟سنشد عضدک باخیک.مکمل حروف تہجی کتنی آیات میں مستعمل ہیں؟دو میں.ثم انزل علیکم.۲(محمد رسول اللہ.وہ تین مسلسل سورتیں کونسی ہیں جن میں لفظ اللہ بالکل نہیں آیا ہے؟تین ہیں۱(سورۃ القمر ۲( سورۃ الرحمن ۳( سورۃ الواقعہ. اور ان میں سے ہر سورۃ تین تین رکوع پر مشتمل ہے.وہ کونسی سورۃ ہے جس کی ہر آیت میں لفظ اللہ کم از کم ایک مرتبہ ضرور آتا ہے؟سورۃ المجادلتہ.وہ کونسی سورۃ ہے جس میں سو سے زیادہ آیات ہیں.مگر اس میں جنت دوزخ کا ذکر بالکل نہیں .وہ سورۃ یوسف ہے.جامع ترین آیت.سورۃ اعراف کی ہے.یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد وکلو ا واشربوا ولا تسرفو انہ لا یحب المسرفین.اس میں امر بھی ہے نہی بھی ہے.اباحت بھی ہے اور خبر بھی .امام اصمعی ؒ نے ایک لڑکی کو دیکھا جو فصیح اشعار پڑھ رہی تھی.پوچھا اس چھوٹی عمر میں اتنی فصاحت اور بلا غت لڑکی نے کہا فصاحت تو قرآن پاک میں ہے. ایکایسی آیت ہے جس میں دو امر ہیں دو نہی دو خبریں اور دو بشارتیں.واحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ الا ےۃ.ارضعیہ القیہ یہ دو امر .لاتخافی ولا تحزنی دو نہی.او حینا اور فاذا خفت دو خبریں .انا رادو ہ الیک وجاعلوہ من المرسلین یہ دو بشارتیں ہیں.؂فصاحت اس کو کہتے ہیں سمجھ میں صاف آ جائےاثر ہو سننے والوں پہ بلاغت اس کو کہتے ہیں.قرآن پاک کا سب سے لمبا رکوع کونسا ہے؟آل عمران کا 17واں رکوع.قرآن پاک کی سب سے لمبی آیت؟آیت مداینہ)یا ایھاالذین امنو ا اذا تدا ینتم(.سورۃ البقرۃ آیت نمبر282.قرآن پاک کی سب سے چھوٹی آیت؟ثم نظر.سب سے آخری آیت کونسی نازل ہوئی؟واتقوا یوماََ ترجعون فیہ.سورۃ بقرۃ آیت نمبر 281.)وضاحت(عام لوگ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن مجید کی آخری آیت الیوم اکملت لکم ہے.مگر یہ بات صیحح نہیں ہے.اکملت والی آیت احکام کے بارے میں ہے.یعنی احکام کے نزول کے سلسلے میںیہ آخری آیت ہے.یعنی اس کے بعد کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوگا.احکام پورے ہوگئے.مطلقاََ آخری وحی.آیت نمبر 281واتقو ا والی ہے.)علمی نکتہ(لفظ اللہ کل 2584مرتبہ قرآن مجید میں آیا ہے.جل جلالہ.)عجیبہ( سورۃ نور میں آیت نمبر۳۱میں سب سے زیادہ ضمیر یں ہیں۔ ۲۵ ضما ئرہیں۔ محمد ﷺ کا نام مبارک 4 مرتبہ آیا ہے احمد ایک مرتبہ آیا ہے حور کا ذکر بھی 4 مرتبہ وہ کون سی آیت ہے جس میں مکمل حروف تہجی استعمال ہوئےہیں محمد الرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفارسورہ فتح کی اس آیت کے علاوہ ایک اور آیت میں بھی پورے عربی حروف تہجی موجود ہیں۔

انسانی جسم

-1 انسان کے پسینے کی بنیادی طو پر کوئی بو نہیں ہوتی بلکہ ہماری جلد پر موجود جراثیم اس سے مل کر بو پیدا کرتے ہیں۔-2 جسم پر زیادہ بالوں کو ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔-3 جاگتا ہوا انسانی دماغ ایک چھوٹے بلب کو روشن کرنے جتنی توانائی پیدا کر سکتا ہے۔-4 انسان جاگنے کے دوران اپنا 10 فیصد وقت آنکھوں کے جھپکنے میں صرف کرتے ہیں۔-5 انسانی ہڈیاں 31 فیصد پانی پر مشتمل ہوتی ہیں۔-6 انسانی جسم میں موجود آئرن سے 3 انچ لمبا لوہے کا کیل بنایا جا سکتا ہے۔-7 جبڑے کے مسلز انسانی جسم کے مضبوط ترین مسلز ہیں۔-8 روزانہ رات کو سات گھنٹے سے کم نیند لینا انسانی زندگی کی معیاد کو کم کر دیتا ہے۔-9 ہم ایک قدم اٹھاتے ہوئے 200 مسلز کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔-10 انسانی دل جسم سے الگ کرنے کے باوجود بھی دھڑکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسانی جسم میں اتنا فولاد ہوتا ہے کہ اس سے درمانے درجے کے سات کیل تیار ہوسکتے ہیں۔ انسانی جسم میں اتنی حرارت ہوتی ہے کہ اس سے چائے کی تین پیالیاں تیار کی جاسکتی ہیں، انسانی چھینک کی رفتارسو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ انسان کے جسم میں اتنی چربی ہوتی ہے کہ اس سے تقریباً چار پونڈ صابن تیار ہوسکتا ہے، انسان میں خون کے اعصاب مرنے کے آدھ گھنٹہ بعد تک انسان کی آنکھیں مرنے کے آدھ گھنٹہ بعد تک زندہ رہتی ہیں۔ انسان کا دماغ مرنے کے بعد دس منٹ تک زندہ رہتا ہے، اور کان مرنے کے بعد ایک گھنٹہ تک زندہ رہتے ہیں۔ انسانی جسم میں اتنی توانائی موجود ہوتی ہے کہ اگر اس کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جائے تو اس سے ساٹھ وولٹ کا بلب دو منٹ تک روشن کیا جاسکتا ہے۔ انسان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ پچاس سال تک تقریباً بیس ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے۔ مرد کی داڑھی ایک سال میں تقریباً سولہ انچ کے حساب سے بڑھتی ہے انسانی ہاتھ میں کل ستائیسہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی سر کل آٹھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی ٹانگ میں کل اکتیس ہڈیاں ہوتی ہیں، انسانی جسم میں کل دو سو چھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی جسم میں کل پچیس لاکھ مسام ہوتے ہیں۔ انسانی ناخن روانہ اوسط اعشاریہ ایک ملی میٹر کے حساب سے بڑھتے ہیں۔ انسانی جلد کا وزن پورے جسم کے وزن کے سولہ فیصد ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں 65 فیصدپانی ہوتا ہے انسان کے دونوں پھیپھیڑوں میں سے دائیں طرف والا پھیپھڑا بڑا ہوتا ہے۔
ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﺩﻥﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﯾﮑﭩﻮ) Active ( ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ .ﺟﺲ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺘﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺁﺗﮯﮨﯿﮟ . ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ IQ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﯾﻌﻨﯽﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽﺻﻼﺣﯿﺖ .ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯﮨﯿﮟ .ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﺧﻮﻥﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ.ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﻦﺳﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﺎ ﺗﯿﺰﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ.ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﺎ ﺑﺎﺭ ﺟﭙﮑﺘﯽﮨﮯ.ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻮﻧﮕﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺑﮩﺖﺗﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺁﺩﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ 6.8 ﻟﯿﭩﺮ ﺧﻮﻥ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ. ﺟﺒﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ 5ﻟﯿﭩﺮﺧﻮﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ.ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﻢ ﺍﺗﻨﺎﺗﮭﻮﮎ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺳﻮﺋﻤﻨﮓﭘﻮﻝ ﺑﮭﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯽﺻﻼﺣﯿﺖ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﺮﻧﭧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ .ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻢﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻨﭩﯽ ﻣﯿﭩﺮ ﻟﻤﺒﮯﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .ﺟﺒﮍﮮ ﮐﯽ ﮨﮉﯼ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﮉﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﻞ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﺎﻧﺼﻒ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ .ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻢ color blind ﮨﻮﺗﮯﮨﯿﮟ ﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﮐﻮ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ .ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺣﺼﮧ ﮨﮯﺟﮩﺎﮞ ﺧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﻭﮦ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮈﮬﯿﻼ ) Cornea ( . ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﺎﮨﮯ .ﮨﻢ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺑﯿﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯﮨﯿﮟ . ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟﺭﮮ ﺳﮑﺘﮯ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮈﺍﻧﭽﮧ ﮨﺮ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪﻧﯿﺎ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ.ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ. ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺘﯿﺲﮐﺮﻭﮌ ﭘﺎﻧﭻ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺎﺿﻤﮧ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺑﺎﺭﮦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍﺳﺎﺭﺍ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﻀﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﺴﻢ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 75% ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻣﺎﻍ 80% ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ.ﺟﺐ ﮨﻢ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢﻣﯿﮟ ﮐﻞ300 ﮨﮉﯾﺎﮞ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ. ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ 206 ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ