Tuesday, November 21, 2017

تصوف کا تاریخ ۔“ جب یہ تجدید کا چلہ ختم ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں روح عنایت فرمائی اور عقل و دانش کا چراغ اس کے دل میں روشن کیا ۔ پھر کائنات نے دیکھا کہ کائنات کے پہلے صوفی کو دل سے زبان تک باتیں آنے لگیں کہ منہ سے انوار واسرار کے پھول جھڑنے لگے ۔جب آپ نے اپنا یہ رنگ دیکھا تو مستی سے جھوم گئے اور خدا کا شکر و احسان بجالائے ۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا”جس نے خلوص سے دل سے 40دن خدا کے لئے خاص کر دئےے اللہ تعالیٰ اس کی زبان اور دل سے حکمت کےچشمے جاری فرمائے گا۔صوفیوں کا یہ بھی معمو ل ہے کہ کسی خاص جگہ پر بیٹھ کر آپس میں مل جل کر راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔چنانچہ دنیا کے پہلے صوفی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اس خلوت در انجمن کے لئے خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی ۔یعنی دنیا میں پہلی خانقاہ کعبہ معظمہ ہے ۔اس سے پہلے کسی خانقاہ کا وجود نہ تھا ۔خرقہ اور خانقاہ کی اصل حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے قائم ہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام نے دنیا میں صرف ایک کمبل پر اکتفا کیا جو ان کو عنایت فرمایا تھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمیشہ جامہ صوف پہنا کرتے تھے ۔پھر جب دور مبارک حضرت محمد ﷺ آیا تو سرکار دو عالم علیہ السلام نے بھی اسی طرح کمبل اختیار فرمایا اور اسی خانقاہ کعبہ شریف کا قصد فرمایا علاوہ اس کے خود مسجد نبوی شریف میں ایک گوشہ معین فرما دیا ۔اصحاب میں وہ گروہ جو سالکان راہ طریقت تھا اسی گوشہ میں ان سے راز و نیاز کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔اس خاص جماعت صوفیہ کے لوگ قریباً 70اشخاص تھے سرکار مدینہ ﷺ کا یہبھی معمول تھا کہ جب کسی صحابی کی عزت و تکریم فرماتے تو ان کو ردائے مبارک یا اپنا پیراہن شریف عنایت فرماتے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہممیں وہ شخص”صوفی“ سمجھا کاجاتا تھا۔اب تو آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ تصوف کی ابتداءحضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کو بام عروج تک امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی ﷺنے پہنچایا ۔اس فیضان تصوف کو پوری دنیا میں پہنچایا گیا ۔عرب و عجم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئےصوفی ازم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔یہ خوش بختی و خوش نصیبی بر صغیر میں سب سے زیادہ ہمارے حصہ میں آئی کہ اس سر زمین کے سینے پر خانقاہیں ہیں ۔کٹائیں، گھاس ،پھوس کی جھونپڑیاں اور درویشوں ، فقیروں کے ڈیرے آباد ہوئے ۔ا ن سفیران محبت میں خواجہ عبد الخالق اویسی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت داتا علی ہجویری، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ،حضرت بابا فرید،خواجہ محکم الدین سیرانی،حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی، حضرت سلطان باہو ،بابا بلھے شاہ، حضرت لال حسین ،بدرالمشائخ پیر سائیں محمد سائیں اسلم اویسی اور میاں محمد بخش)رحمة اللہعلیہم ( جیسے صوفیاءکرام نے اس سر زمین کو علم و آگہی ،معرفت و طریقت ،فقر ، مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی ایسی لازوال خوشبو سے مہکادیا کہ آج تک یہ دھرتی ان خوشبوﺅں سے سرفراز ہے اور مسلسل مہک رہی ہے ۔صوفی ازم و تصوف کی بدولت یہاں کے باسیوں میں درویشی سوز و گداز ،رواداری اور انسان دوستی تہذیب و تمدن بن کر ہمارے رہنسہن کی سب سے بڑی شناخت بن چکی ہے ۔مگر اس کے باوجود ہم ابھی تک تصوف کی ایک جامع تعریف کے متلاشی ہیں ایسی تعریف جو ہماری ہتھیلیوں پر ایسے چراغ روشن کر دے جس کے ذریعے ہم نامعلوم کی تاریک دنیا میں داخل ہو سکیں ۔سلوک کی منازل کا مشاہدہ کر سکیں ۔صوفیاءکے افکار میں پیغمبرانہ گہرائی کو محسوس کر سکیں ۔حضرت شاہ شمس تبریز نے تصوف ہیکی تلوار سے مولانا روم رحمة اللہ علیہ کے عالمانہ زعم کو دو ٹکڑے کر دیا اور رومی رحمة اللہ علیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تصوف کی ازلی روشنی کا حصہ بنگیا اور عشق کی سر مستی رومی کے روم روم میں سما گئی ۔صوفیاءکرام کی روحانی کائنات کے سبھی منطقے توحید و رسالت کے مدار پر طواف کرتے نظر آتے ہیں جب بر صغیر میں بھگتی تحریک نے زور پکڑا ۔بھگت کبیر ۔میرابائی یا گرو نانک جیسیشخصیات کی اجتہادی ذکاوتوں نے تصوف کی ہندوستانی شکل میں عمومی سماجی زندگی پر برق رفتاری سے اثرات مرتب کرنا شروع کےے اور تصوف ایک نئی صورت میں عوامی تحریک بن کر ابھر نے لگا تو مسلمان صوفی شعراء نے مسئلہ وحدت الوجود کا سہارا لے کراس طوفان بلا خیز کے سامنے ایک بند باندھ دیا ۔مسئلہ ہمہ اوست نے خدا، انسان اور مظاہر فطرت کو ہم رشتہ کیا۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے عظیم منصب او رامتیاز کو ایسی فوقیت عطا کی کہ نامرادی ،سیاسی ،سماجی جبر،بے بسی اور لاچاری کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں میں اپنی اہمیت اور فضلیت کی لوجل اٹھی ۔خدا اور اس کے بندے سے پیار کا پرچار صوفیاءکیشاعری و تعلیمات کا سب سے مقبول ترین موضوع بنا ۔کیونکہ تصوف براہ راست محبت کا مذہب ہے ۔ یہ دل اور روح کی طرف جانے والا سیدھا راستہ ہے ۔اسلئے انسان کے دل تک رسائی ضروری تھی ۔انسان کو خود شناسی اور اعتماد کی دولت سے سرفراز کرنا تھا ۔اسی لئے صوفیاءکرام نے اپنے افکار و اشعار میں سب سے زیادہ انسان کو مخاطب کیا ہے ۔کیونکہ کائنات کا حسن بھی انسانسے ہے اور خدا کی لازوال محبت کا مقصود بھی انسان ہی ہے ۔انسان ہی حق تعالیٰ کی صفات کا مظہر اورحکمت و دانش، عشق و سرمستی ،نامعلوم کی جستجو اسی کی سر شت میں شامل ہے ۔جب خود شناسی و خود آگہی کی منزل انسان طے کر لے تو دست نگر رہنے کی بجائے وہ دستگیری کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔معرفت ذات کے ساتھ اسے معرفت خدا بھی حاصل ہو جاتی ہے کل جہاں اس کی دسترس میں ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ درس عظیم تھا جو صوفیاءکرام نے قوانین اسلام کے مطابق یہاں بسنے والے ہر انسان کو دیا جس سے ان کے دلوں میں خود شناسی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ۔اس سر زمین کی فضاﺅں میں صوفیاءنے جذب و مستی ،فقر و درویشی ،محبت و عاجزی ،ایثار و تعظیم ،قناعت و خوشی اور ازلی و ابدی صداقتوں کی ہر سو روشنی بکھیر دی۔مذکورہ بالاسطور سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تصوف خلاف اسلام نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے ۔تصوف کسی خاص طبقے کی میراث ہی نہیں بلکہ تصوف کا رشتہ عوام سے بھی بڑا گہرا ہے ۔تصوف کا تعلق براہ راست ایمان اور وجدان سے ہے ۔تصوف کے بنیادی مطالب مشرق و مغرب میں کم و بیش یکساں ہیں ۔جن میں اصل ہستی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب کا رب ہے جو بے امتیاز کافر و مومن کو رزق دیتا ہے ۔خدا تک پہنچنے کےلئے تصوف کی راہاور صوفی ازم کو اختیار کرنا چاہےے ۔جو انسان کوشکوک و شبہات کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان خطوں میں لے آتا ہے جہاں رحم و شفقت کی کرنیں سب پریکساں پڑتی ہے ۔تصوف کے راستہ پر چلنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک و صاف کرے اور شریعت اسلامیہ کا پابند ہو ۔صوفی ازم اور تصوف کی منزلیں ایسی دشوار گزاہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک ہادی و رہبر کی ضرورت پڑتی ہے ۔جس کو پیر و مرشد کہتے ہیں ۔اصطلاح صوفیاءمیں جب انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے تو وہ مختلف منزلوں سے گزرنے کے بعد وجد اور استغراق کے مرحلوں سے گزر کر ذات الہٰی کا قرب حاصل کر لیتا ہے ۔یہ بڑا بلند مقام ہے اور اسے فنافی اللہ کہتے ہیں اور بعض صوفی مدعی ہیں کہ اس کے بعد بھی ایک مقام ہے جس مقام بقاءکہتے ہیں ۔نکلس نے کہا تھا”تصوف صوفیائے کرام کا مذہب ہے جس میں تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کر کے قلب کی صفائی کی جاتی ہے اور صوفی پر ہیز گار بھی ہوتا ہے وہ غیر حق کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے ۔ایک محقق کا خیال ہے کہ تصوف در اصل نام ہے واقعات قلبی اور جذبات روحانی کا جس کا محرک ہمیشہ عشق ہوتا ہے اور عشق ایک جذبہ محترم ہے جس کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا:عشق کے مضراب سے نغمہ تارحیات عشق سے نور حیات عشق سے نارحیاتمگر اسرارو معارف اور فلسفہ و حکمت کے رموز کو صوفیاءعشق کی گہرائی میںیوں دیکھتے ہیں ۔صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشقکسی شاعر نے عشق کو انسانی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہاتم نہ مانو مگر حقیقت ہے عشق انسان کی ضرورت ہےصوفی شاعر خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا محور و مرکز عشق ہی کو قرار دیتے ہوئے فرمایا۔عشق ہے ہادی پریم نگرکا عشق ہے رہبر راہ فقر کایہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاءکرام نے اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے سینوں میںحرارت بخشی اور غافل انسانوں کو ایک خدا، ایک رسول ، ایک قرآن اور ایک کعبہ کی طرف بلایا ۔ ´انہیں اخوت و محبت کا درس عام دیا اور خود شناسی کو خدا شناسی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔بعض صاحب عقل حضرات نے کہا ”صوفی با صفا وہی ہوتے ہیں جو دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں اور معبود کی محبت کو زندگی کا قرینہ بنالیں ۔“مذکورہ بالا تمام تحریر کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ تصوف اور صوفی ازم اسلام سے متصادم نہیں بلکہ اسلام ہی کا حصہ ہے ۔صوفی ازم عالمی امن کا ضامن اور احترام انسانیت کا علمبردار ہے ۔صوفی ازم میں علاقائی ،نسلی، لسانی اوررنگ کی تفریق کو پس پشت ڈال کر وحدت ملت کا درس ہے ۔صوفی ازم و تصوف بے سکوں انسانیت کے لئے شجر سایہ دار ہے ۔آج دنیا میں جو مسائل ایٹم بم اور اسلحہ سے حل نہیں ہو رہے تعلیمات صوفیہ میں ان کا بہترین مکمل اور شافی حل موجود ہے ۔”تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جس میں اسلام کے کلچر کو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مغلوب نہ ہو سکا کیونکہ ٹھیک اسی دم صوفیا کا گروہ اس کی مدد کو آجاتا اوراپنے انداز فکر سے اس ”تن بیمار“ میں اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ ساری طاقتیں اس کے سامنے عاجز آجاتی تھیں ۔“مولف تاریخ سلسلہ فردوسیہ نے تاریخ تصوف کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے اور قدرے تفصیل سے اس کے اہم پہلوﺅں پر روشنی ڈالی ہے ۔پہلے طبقہ کے صوفیاءکر دور 661ءسے 850ءتک متعین کیا جا سکتا ہے ۔اس طبقہ کے چند اہم صوفیا کے اسما گرامی یہ ہےں۔ حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضیاللہ عنہ ، حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ، حضرت مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ ،حضرت محمد واسع رحمة اللہ علیہ ، حضرتحبیب عجمی رحمة اللہ ع

1 comment:

  1. Wynn Slots - The JT Hub
    Wynn Slots. 성남 출장안마 The Wynn Slots. The Wynn 대구광역 출장안마 Slots. The Wynn Slots. 광명 출장안마 The Wynn Slots. The Wynn Slots. The Wynn Slots. The 공주 출장샵 Wynn Slots. The 김천 출장샵 Wynn Slots.

    ReplyDelete