Wednesday, December 13, 2017

معلوماتسوال:سمندری پانی کو صاف کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ کس اسلامی ملک میں ہے؟جواب:کویتسوال:عالم اسلام کا وہ کونسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہجزیرے )تین ہزار کی تعداد میں ہیں۔جواب:انڈونیشیائسوال:ہتھیار سازی کا سب سے بڑا کارخانہ عالم اسلام کے کس ملک میں ہے؟جواب:پاکستانسوال:دنیا کا سب سے بڑا جنازہ کس کا تھا یعنی کس کے جنازہ میں سب سے زیادہ لوگ شریک ہوئے تھے؟جواب:مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے جنازہ میں جس میں 40 لاکھ افرادشریک رہے۔ سوال :عالم اسلام کی سب سے بڑی نمک کی کان کس ملک میں ہے؟جواب:پاکستانسوال:عالم اسلام کا سب سے بڑا اردو اخبار کس ملک سے شائع ہوتا ہے؟جواب:پاکستان )روزنامہ جنگ(سوال:رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ملک کونسا ہے؟جواب:سعودی عرب ‘جس کا رقبہ 12,50,000 ،یعنی بارہ لاکھ پچاس ہزار مربع میل ہے۔سوال:رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک کونسا ہے؟جواب:قزاقستان جس کا رقبہ 10,49,200 ،یعنی دس لاکھ انچاس ہزار دو سو مربع میل ہےسوال:دنیا کی سب سے بڑی خلیج کونسی ہے؟جواب:خلیج بنگال جس کا رقبہ 8,39,000 ، یعنی آٹھ لاکھ انتالیس ہزار مربع میل ہے۔سوال:دنیا کا سب سے بڑا رہائشی محل کس ملک میں ہے؟جواب:برونائی ، شاہ برونئی کی رہائش گاہ جس میں 1,788 کمرے ہیں۔سوال:اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ہاکی اسٹیڈیم کس ملک میں ہے؟جواب:پاکستان )نیشنل ہاکی اسٹیڈیم ، لاہور(سوال:دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹایعنی تکونی زمین کونسی ہے اور کس ملک میں ہے ۔جواب:بنگلہ دیش … گنگا اور برہم پتر دریاو ¿ں کا ڈیلٹاسوال:دنیا کی سب سے بڑی جھیل کا نام کیا ہے؟جواب:بحیرہ کیسپین جس کا رقبہ 1,43,550 ،یعنی ایک لاکھتینتالیس ہزار پانچ سو پچاس مربع میل ہےسوال:دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام کس ملک میں ہے؟جواب:پاکستان۔

Tuesday, November 21, 2017

تصوف کا تاریخ ۔“ جب یہ تجدید کا چلہ ختم ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں روح عنایت فرمائی اور عقل و دانش کا چراغ اس کے دل میں روشن کیا ۔ پھر کائنات نے دیکھا کہ کائنات کے پہلے صوفی کو دل سے زبان تک باتیں آنے لگیں کہ منہ سے انوار واسرار کے پھول جھڑنے لگے ۔جب آپ نے اپنا یہ رنگ دیکھا تو مستی سے جھوم گئے اور خدا کا شکر و احسان بجالائے ۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا”جس نے خلوص سے دل سے 40دن خدا کے لئے خاص کر دئےے اللہ تعالیٰ اس کی زبان اور دل سے حکمت کےچشمے جاری فرمائے گا۔صوفیوں کا یہ بھی معمو ل ہے کہ کسی خاص جگہ پر بیٹھ کر آپس میں مل جل کر راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔چنانچہ دنیا کے پہلے صوفی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اس خلوت در انجمن کے لئے خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی ۔یعنی دنیا میں پہلی خانقاہ کعبہ معظمہ ہے ۔اس سے پہلے کسی خانقاہ کا وجود نہ تھا ۔خرقہ اور خانقاہ کی اصل حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے قائم ہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام نے دنیا میں صرف ایک کمبل پر اکتفا کیا جو ان کو عنایت فرمایا تھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمیشہ جامہ صوف پہنا کرتے تھے ۔پھر جب دور مبارک حضرت محمد ﷺ آیا تو سرکار دو عالم علیہ السلام نے بھی اسی طرح کمبل اختیار فرمایا اور اسی خانقاہ کعبہ شریف کا قصد فرمایا علاوہ اس کے خود مسجد نبوی شریف میں ایک گوشہ معین فرما دیا ۔اصحاب میں وہ گروہ جو سالکان راہ طریقت تھا اسی گوشہ میں ان سے راز و نیاز کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔اس خاص جماعت صوفیہ کے لوگ قریباً 70اشخاص تھے سرکار مدینہ ﷺ کا یہبھی معمول تھا کہ جب کسی صحابی کی عزت و تکریم فرماتے تو ان کو ردائے مبارک یا اپنا پیراہن شریف عنایت فرماتے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہممیں وہ شخص”صوفی“ سمجھا کاجاتا تھا۔اب تو آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ تصوف کی ابتداءحضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کو بام عروج تک امام الانبیاءحضرت محمد مصطفی ﷺنے پہنچایا ۔اس فیضان تصوف کو پوری دنیا میں پہنچایا گیا ۔عرب و عجم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئےصوفی ازم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔یہ خوش بختی و خوش نصیبی بر صغیر میں سب سے زیادہ ہمارے حصہ میں آئی کہ اس سر زمین کے سینے پر خانقاہیں ہیں ۔کٹائیں، گھاس ،پھوس کی جھونپڑیاں اور درویشوں ، فقیروں کے ڈیرے آباد ہوئے ۔ا ن سفیران محبت میں خواجہ عبد الخالق اویسی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت داتا علی ہجویری، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ،حضرت بابا فرید،خواجہ محکم الدین سیرانی،حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی، حضرت سلطان باہو ،بابا بلھے شاہ، حضرت لال حسین ،بدرالمشائخ پیر سائیں محمد سائیں اسلم اویسی اور میاں محمد بخش)رحمة اللہعلیہم ( جیسے صوفیاءکرام نے اس سر زمین کو علم و آگہی ،معرفت و طریقت ،فقر ، مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی ایسی لازوال خوشبو سے مہکادیا کہ آج تک یہ دھرتی ان خوشبوﺅں سے سرفراز ہے اور مسلسل مہک رہی ہے ۔صوفی ازم و تصوف کی بدولت یہاں کے باسیوں میں درویشی سوز و گداز ،رواداری اور انسان دوستی تہذیب و تمدن بن کر ہمارے رہنسہن کی سب سے بڑی شناخت بن چکی ہے ۔مگر اس کے باوجود ہم ابھی تک تصوف کی ایک جامع تعریف کے متلاشی ہیں ایسی تعریف جو ہماری ہتھیلیوں پر ایسے چراغ روشن کر دے جس کے ذریعے ہم نامعلوم کی تاریک دنیا میں داخل ہو سکیں ۔سلوک کی منازل کا مشاہدہ کر سکیں ۔صوفیاءکے افکار میں پیغمبرانہ گہرائی کو محسوس کر سکیں ۔حضرت شاہ شمس تبریز نے تصوف ہیکی تلوار سے مولانا روم رحمة اللہ علیہ کے عالمانہ زعم کو دو ٹکڑے کر دیا اور رومی رحمة اللہ علیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تصوف کی ازلی روشنی کا حصہ بنگیا اور عشق کی سر مستی رومی کے روم روم میں سما گئی ۔صوفیاءکرام کی روحانی کائنات کے سبھی منطقے توحید و رسالت کے مدار پر طواف کرتے نظر آتے ہیں جب بر صغیر میں بھگتی تحریک نے زور پکڑا ۔بھگت کبیر ۔میرابائی یا گرو نانک جیسیشخصیات کی اجتہادی ذکاوتوں نے تصوف کی ہندوستانی شکل میں عمومی سماجی زندگی پر برق رفتاری سے اثرات مرتب کرنا شروع کےے اور تصوف ایک نئی صورت میں عوامی تحریک بن کر ابھر نے لگا تو مسلمان صوفی شعراء نے مسئلہ وحدت الوجود کا سہارا لے کراس طوفان بلا خیز کے سامنے ایک بند باندھ دیا ۔مسئلہ ہمہ اوست نے خدا، انسان اور مظاہر فطرت کو ہم رشتہ کیا۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے عظیم منصب او رامتیاز کو ایسی فوقیت عطا کی کہ نامرادی ،سیاسی ،سماجی جبر،بے بسی اور لاچاری کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں میں اپنی اہمیت اور فضلیت کی لوجل اٹھی ۔خدا اور اس کے بندے سے پیار کا پرچار صوفیاءکیشاعری و تعلیمات کا سب سے مقبول ترین موضوع بنا ۔کیونکہ تصوف براہ راست محبت کا مذہب ہے ۔ یہ دل اور روح کی طرف جانے والا سیدھا راستہ ہے ۔اسلئے انسان کے دل تک رسائی ضروری تھی ۔انسان کو خود شناسی اور اعتماد کی دولت سے سرفراز کرنا تھا ۔اسی لئے صوفیاءکرام نے اپنے افکار و اشعار میں سب سے زیادہ انسان کو مخاطب کیا ہے ۔کیونکہ کائنات کا حسن بھی انسانسے ہے اور خدا کی لازوال محبت کا مقصود بھی انسان ہی ہے ۔انسان ہی حق تعالیٰ کی صفات کا مظہر اورحکمت و دانش، عشق و سرمستی ،نامعلوم کی جستجو اسی کی سر شت میں شامل ہے ۔جب خود شناسی و خود آگہی کی منزل انسان طے کر لے تو دست نگر رہنے کی بجائے وہ دستگیری کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔معرفت ذات کے ساتھ اسے معرفت خدا بھی حاصل ہو جاتی ہے کل جہاں اس کی دسترس میں ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ درس عظیم تھا جو صوفیاءکرام نے قوانین اسلام کے مطابق یہاں بسنے والے ہر انسان کو دیا جس سے ان کے دلوں میں خود شناسی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ۔اس سر زمین کی فضاﺅں میں صوفیاءنے جذب و مستی ،فقر و درویشی ،محبت و عاجزی ،ایثار و تعظیم ،قناعت و خوشی اور ازلی و ابدی صداقتوں کی ہر سو روشنی بکھیر دی۔مذکورہ بالاسطور سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تصوف خلاف اسلام نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے ۔تصوف کسی خاص طبقے کی میراث ہی نہیں بلکہ تصوف کا رشتہ عوام سے بھی بڑا گہرا ہے ۔تصوف کا تعلق براہ راست ایمان اور وجدان سے ہے ۔تصوف کے بنیادی مطالب مشرق و مغرب میں کم و بیش یکساں ہیں ۔جن میں اصل ہستی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب کا رب ہے جو بے امتیاز کافر و مومن کو رزق دیتا ہے ۔خدا تک پہنچنے کےلئے تصوف کی راہاور صوفی ازم کو اختیار کرنا چاہےے ۔جو انسان کوشکوک و شبہات کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان خطوں میں لے آتا ہے جہاں رحم و شفقت کی کرنیں سب پریکساں پڑتی ہے ۔تصوف کے راستہ پر چلنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک و صاف کرے اور شریعت اسلامیہ کا پابند ہو ۔صوفی ازم اور تصوف کی منزلیں ایسی دشوار گزاہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک ہادی و رہبر کی ضرورت پڑتی ہے ۔جس کو پیر و مرشد کہتے ہیں ۔اصطلاح صوفیاءمیں جب انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے تو وہ مختلف منزلوں سے گزرنے کے بعد وجد اور استغراق کے مرحلوں سے گزر کر ذات الہٰی کا قرب حاصل کر لیتا ہے ۔یہ بڑا بلند مقام ہے اور اسے فنافی اللہ کہتے ہیں اور بعض صوفی مدعی ہیں کہ اس کے بعد بھی ایک مقام ہے جس مقام بقاءکہتے ہیں ۔نکلس نے کہا تھا”تصوف صوفیائے کرام کا مذہب ہے جس میں تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کر کے قلب کی صفائی کی جاتی ہے اور صوفی پر ہیز گار بھی ہوتا ہے وہ غیر حق کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے ۔ایک محقق کا خیال ہے کہ تصوف در اصل نام ہے واقعات قلبی اور جذبات روحانی کا جس کا محرک ہمیشہ عشق ہوتا ہے اور عشق ایک جذبہ محترم ہے جس کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا:عشق کے مضراب سے نغمہ تارحیات عشق سے نور حیات عشق سے نارحیاتمگر اسرارو معارف اور فلسفہ و حکمت کے رموز کو صوفیاءعشق کی گہرائی میںیوں دیکھتے ہیں ۔صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشقکسی شاعر نے عشق کو انسانی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہاتم نہ مانو مگر حقیقت ہے عشق انسان کی ضرورت ہےصوفی شاعر خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا محور و مرکز عشق ہی کو قرار دیتے ہوئے فرمایا۔عشق ہے ہادی پریم نگرکا عشق ہے رہبر راہ فقر کایہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاءکرام نے اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے سینوں میںحرارت بخشی اور غافل انسانوں کو ایک خدا، ایک رسول ، ایک قرآن اور ایک کعبہ کی طرف بلایا ۔ ´انہیں اخوت و محبت کا درس عام دیا اور خود شناسی کو خدا شناسی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔بعض صاحب عقل حضرات نے کہا ”صوفی با صفا وہی ہوتے ہیں جو دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں اور معبود کی محبت کو زندگی کا قرینہ بنالیں ۔“مذکورہ بالا تمام تحریر کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ تصوف اور صوفی ازم اسلام سے متصادم نہیں بلکہ اسلام ہی کا حصہ ہے ۔صوفی ازم عالمی امن کا ضامن اور احترام انسانیت کا علمبردار ہے ۔صوفی ازم میں علاقائی ،نسلی، لسانی اوررنگ کی تفریق کو پس پشت ڈال کر وحدت ملت کا درس ہے ۔صوفی ازم و تصوف بے سکوں انسانیت کے لئے شجر سایہ دار ہے ۔آج دنیا میں جو مسائل ایٹم بم اور اسلحہ سے حل نہیں ہو رہے تعلیمات صوفیہ میں ان کا بہترین مکمل اور شافی حل موجود ہے ۔”تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جس میں اسلام کے کلچر کو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مغلوب نہ ہو سکا کیونکہ ٹھیک اسی دم صوفیا کا گروہ اس کی مدد کو آجاتا اوراپنے انداز فکر سے اس ”تن بیمار“ میں اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ ساری طاقتیں اس کے سامنے عاجز آجاتی تھیں ۔“مولف تاریخ سلسلہ فردوسیہ نے تاریخ تصوف کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے اور قدرے تفصیل سے اس کے اہم پہلوﺅں پر روشنی ڈالی ہے ۔پہلے طبقہ کے صوفیاءکر دور 661ءسے 850ءتک متعین کیا جا سکتا ہے ۔اس طبقہ کے چند اہم صوفیا کے اسما گرامی یہ ہےں۔ حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضیاللہ عنہ ، حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ، حضرت مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ ،حضرت محمد واسع رحمة اللہ علیہ ، حضرتحبیب عجمی رحمة اللہ ع

Saturday, November 4, 2017

ادکار ندیم

ندیم بیگپاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نام مرزا نذیر بیگ کا ہے جسے دنیا ندیم کے نام سے جانتی ہے۔ندیم 19جولائی 1941ء میں مدراس کے شہرVijayawada)وجایاودا( میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا محمود بیگ تھا۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میںآباد ہوا۔ ندیم نے اسلامیہ کالج کراچی سے بی اے کیا۔ندیم نے سب سے پہلے گلوکارہ فردوسی بیگم کے مشورے پر نثار بزمی کی موسیقی میں فلم ’’سہرا‘‘ میں گلوکاری کی لیکن وہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔ انہی دنوں ہدایت کار کیپٹن احتشام نے ہنگامی طور پر اپنی فلم’’چکوری‘‘ میں ندیم کو بطور ہیرو کاسٹ کر لیا اور یہیں سے ان کی کامیابی کا آغاز ہو گیا۔’’چکوری‘‘ میں ان کے مقابل ہیروئین شبانہ تھیں۔ یہ فلم 19مئی 1967ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ندیم کی آواز میں فردوسی بیگم کے ساتھ ایک دوگانا بھی شامل تھاجو بہت مقبول ہوا۔ )کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں(’’چکوری‘‘ کی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بےپناہ کامیابی کے بعد ایک طرف ندیم پر فلموں کے دروازے کھل گئے تو دوسری کیپٹن احتشام نے اپنی بیٹی کارشتہ ندیم کے ساتھ کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس طرح 8فروری 1950ء کو پیدا ہونے والی کیپٹن احتشام کی بیٹی فرزانہ مورخہ 29ستمبر 1969ء کو ندیم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ندیم نے فلمی دنیا پر 40سال تک راج کیا۔ اس دوران انہوں نے دو سو سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں 24فلمیں ڈائمنڈ جوبلی تھیں۔ ان فلموں میں نادان، اناڑی،پہچان، تلاش، آئینہ، ہم دونوں، لاجواب، قربانی، سنگدل، دہلیز وغیرہ شامل تھیں۔جبکہ دس فلموں چکوری، دل لگی، امبر، زندگی، پاکیزہ، بندش، میاں بیوی راضی، کامیابی، جیوا اور دیوانے تیرے پیار کے نے پلاٹیننم جوبلی کا سہرا سجایا اور لاتعداد فلمیں گولڈن جوبلی ہوئیں۔ندیم کی سب سے کامیاب اور بین الاقوامی شہرت کی حامل فلم ’’آئینہ‘‘ ہے جس میں ان کے ساتھ شبنم کی اداکاری کو لازوال شہرت ملی۔ یہ فلم 18مارچ 1977ء کو ریلیز ہوئی اور اس نے پورے پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے، خصوصاً کراچی کے اسکالا سینما میں مسلسل پانچ سال نمائش پذیر رہ کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔اس فلم کو 12نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ندیم کی دیگر چند مشہور فلموں میں بہن بھائی، آنسو، دامن اور چنگاری، سماج، انتظار، شمع، زینت، جب جب پھول کھلے، پرنس، پلے بوائے، بدلتے موسم، مہندیلگی میرے ہاتھ، دلنشیں، خوبصورت، آہٹ، لازوال، دیوانے دو، فیصلہ، بازار حسن، بلندی، مہربانی، قاتل کی تلاش، آوارگی وغیرہ شامل ہیں۔ندیم کو ان کے فن پر 19نگار ایوارڈ ملے۔ اس کے علاوہ 1991ء میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2000ء میں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ سےبھی نوازا گیا۔ مزید برآں انہیں ہلال امتیاز اور ستارئہ امتیاز کا اعزاز بھی ملا۔ندیم نے ایک پنجابی فلم ’’مکھڑا‘‘ بنائی جس میں انہوں نے بابرہ شریف کے مقابل ہیرو کا کردار بھی ادا کیا۔ یہ ان کی پہلی پنجابی فلم تھی۔مکھڑا اور دیگر چار فلموں کو نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ندیم نے اپنے دور کی تقریباً ہر ہیروئین کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی سب سے زیادہ فلمیں شبنم کے ساتھ ہیں اور بہت طویل عرصہ تک ندیم اور شبنم کی جوڑی فلموںکی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی رہی۔بھارت میں سب سے زیادہ ندیم کی کامیاب فلموں کا چربہ بنایا گیا جن میں آئینہ )پیار جھکتا نہیں(، دہلیز)اونچے لوگ(، مہربانی )الگ الگ(، آنسو )مظلوم(، سنگدل)جھوٹا سچ(، لازوال )جانباز، ضدی لڑکا(، فیصلہ )پاپ کی دنیا(، قربانی )ادھیکار(، دل لگی )جھوٹا کہیں کا(، بازار حسن )پتی پتنی اور طوائف(، استادوں کے استاد )انداز اپنا اپنا( شامل ہیں۔ لیکن ان تمام فلموں میں بھارت کا کوئی بھی ہیرو ندیم کا مقابلہ نہ کر سکا اور یہ بھارتی فلمیں زیادہ تر ناکام ہو گئیں۔ندیم نے گلوکاری کے میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا اور متعدد فلموں میں پلے بیک سنگر کے طور پر گانے گائے جن میں چند یہ ہیں۔٭ کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں یہ سماں)چکوری( دوگانا ہمراہ فردوسی بیگم٭ پیار کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے یارو )دل لگی(٭ اور حسیں بھی دیکھے ہوں گے میری بات نرالی )دو بدن( دوگانا ہمراہ نیرہ نور٭ لکھے پڑے ہوتے اگر تو تم کو خط لکھتے )اناڑی(٭منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا نہیں شرماں دا گھنڈ لاہی دا)مکھڑا( دوگانا ہمراہ نورجہاںندیم بیگ آج کل ٹی وی چینلز پر بہت متحرک نظر آ رہے ہیں اور فلموں کے بعد انہوں نے اس فیلڈ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوا لیا ہے۔ ان کے چند ٹی وی ڈراموںکےنام یہ ہیں۔ بساط، چلتے چلتے، چہرے، محبت کا ایک پھیر،ہار جیت، راکھ میں چنگاری، فرصت، مسافر خانہ۔

دیم بارن 19-07-1941 ڈائمنڈ جوبلی 1نادان 1973اناڑی 1975 پہچان 1975تلاش1976آئینہ1977ہمدونوں1980لاجواب1981قربانی1981سنگدل1982دہلیز1983

Wednesday, November 1, 2017

قرانی معلومات

قرانی معلومات قران پاک میں کل26 انبیاء علیھم السلام کا ذکر آیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سب سے زیادہ آیا ہے.قران پاک کے پہلے حافظ حضرت عثمان غنیؓ تھے.قران مجید کا دل ےٰسین ہے.اور عروس القران سورۃ الرحمن ہے.چھ انبیاء کے نام سے سورتیں ہیں. سورۃ یونسؑ ، سورۃ ھود، سورۃ یوسف، سورۃ ابراہیم، سورۃ محمد، سورۃ نوح علیھم السلام. قران مجید کی کل114سورتیں ہیں.ان میں مکی کی تعداد 87ہے.اور مدنی کی تعداد 27ہے.کل سات جگہیں ہیں جہاں سورۃ اور پارہ اکٹھے شروع ہو چکے ہیں.سورۃکا لفظ کل سات جگہ استعمال ہوا ہے.قران میں 12جگہ امام کا لفظ آیا ہے.700جگہ نما ز کی تاکید کی گئی ہے.150جگہ خیرات کی تاکید کی گئی ہے.70سے زائد مقامات پر دعا مانگنےکی تاکید کی گئی ہے.رحمت عالمﷺ کو 11مرتبہ یاایھا النبی سے مخاطب فرمایا ہے.سب سے پہلے کاتب وحی خالد بن سعید بن ابی العاص ہیں۔سب سے آخری وحی ابی بن کعب نے لکھی ہے اس کے بعد وحی بند ہو گئی.کاتبین وحی کی تعداد26تھی.ان میں خلفاء اربعہ بھی تھے.امام حلبی نے لکھا ہے کہ رسول پاک ﷺ کے زمانے میں چار حضرات نے قرآن پاک کو سینوں میں جمع کیا تھا.ابی بن کعب،معاذبن جبل،زید بن ثابت،ابو زید رضی اللہ عنھم.قرآن مجید کی سب سے پہلی تفسیر ابی بن کعبؓ کی ہے.پھر بعد میں ابن عباسؓ کی ہے.پوری سورۃ جو ایک دفعہ اکھٹی نازل ہوئی تھی.وہ و المرسلات ہے.سورۃ انعام کی بھی روایت ہے.مگر وہ روایت ضعیف ہے.)الاتقان(قران پاک کی مدت نزول 22سال 5ماہ14دن تقریباََ ہے.لفظی اور تحریری طور پر سب سے طویل کلمہ فاسقینا کموہ ہے..تین سورتوں کو بددعا سے شروع کیا ہے.)تطفیف،ھمزہ،لھب(.پندرہ سورتوں کو قسم سے شروع کیا ہے.29سورتوں کو حروف تہجی سے شروع کیاہے.سورتوں کے لحظ سے الحدید تک نصف اول اور مجادلہسے نصف آخر ہے.سات سورتوں کا آغاز سبح اور سبحان سے ہوا ہے.سب سے طویل سور ۃ بقرۃ ہے.مکمل رکوع جو صرف ایک آیت پر مشتمل ہے و ہ سورۃ مزمل کا دوسرا رکوع ہے.مجاہد سے سوال ہوا.کہ اِلا غرورا کتنی مرتبہ آیا ہے .فرمایا چار مرتبہ.نساء ،اسراء ،احزاب اور فاطرمیں.امام کسائی سے سوال ہوا کتنی ایسی آیات ہیں جن کے شروع میں ش آتا ہے.فرمایا چار آیات.شھر رمضان.شھداللہ،شاکراََلانعمہ،شرع لکم فی الدین.پھر آپ سے سوال ہوا کہ وہ کتنی آیات ہیں جن کے آخر میں ش ہے.فرمایا دو آیات.کاالعھن المنفوش.لایلٰف قریش.مسلسل آٹھ متحرک حروف کونسے ہیں؟ انی رأیت احد عشر کو کبا.مسلسل ۱۱ متحرک حروف؟سنشد عضدک باخیک.مکمل حروف تہجی کتنی آیات میں مستعمل ہیں؟دو میں.ثم انزل علیکم.۲(محمد رسول اللہ.وہ تین مسلسل سورتیں کونسی ہیں جن میں لفظ اللہ بالکل نہیں آیا ہے؟تین ہیں۱(سورۃ القمر ۲( سورۃ الرحمن ۳( سورۃ الواقعہ. اور ان میں سے ہر سورۃ تین تین رکوع پر مشتمل ہے.وہ کونسی سورۃ ہے جس کی ہر آیت میں لفظ اللہ کم از کم ایک مرتبہ ضرور آتا ہے؟سورۃ المجادلتہ.وہ کونسی سورۃ ہے جس میں سو سے زیادہ آیات ہیں.مگر اس میں جنت دوزخ کا ذکر بالکل نہیں .وہ سورۃ یوسف ہے.جامع ترین آیت.سورۃ اعراف کی ہے.یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد وکلو ا واشربوا ولا تسرفو انہ لا یحب المسرفین.اس میں امر بھی ہے نہی بھی ہے.اباحت بھی ہے اور خبر بھی .امام اصمعی ؒ نے ایک لڑکی کو دیکھا جو فصیح اشعار پڑھ رہی تھی.پوچھا اس چھوٹی عمر میں اتنی فصاحت اور بلا غت لڑکی نے کہا فصاحت تو قرآن پاک میں ہے. ایکایسی آیت ہے جس میں دو امر ہیں دو نہی دو خبریں اور دو بشارتیں.واحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ الا ےۃ.ارضعیہ القیہ یہ دو امر .لاتخافی ولا تحزنی دو نہی.او حینا اور فاذا خفت دو خبریں .انا رادو ہ الیک وجاعلوہ من المرسلین یہ دو بشارتیں ہیں.؂فصاحت اس کو کہتے ہیں سمجھ میں صاف آ جائےاثر ہو سننے والوں پہ بلاغت اس کو کہتے ہیں.قرآن پاک کا سب سے لمبا رکوع کونسا ہے؟آل عمران کا 17واں رکوع.قرآن پاک کی سب سے لمبی آیت؟آیت مداینہ)یا ایھاالذین امنو ا اذا تدا ینتم(.سورۃ البقرۃ آیت نمبر282.قرآن پاک کی سب سے چھوٹی آیت؟ثم نظر.سب سے آخری آیت کونسی نازل ہوئی؟واتقوا یوماََ ترجعون فیہ.سورۃ بقرۃ آیت نمبر 281.)وضاحت(عام لوگ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن مجید کی آخری آیت الیوم اکملت لکم ہے.مگر یہ بات صیحح نہیں ہے.اکملت والی آیت احکام کے بارے میں ہے.یعنی احکام کے نزول کے سلسلے میںیہ آخری آیت ہے.یعنی اس کے بعد کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوگا.احکام پورے ہوگئے.مطلقاََ آخری وحی.آیت نمبر 281واتقو ا والی ہے.)علمی نکتہ(لفظ اللہ کل 2584مرتبہ قرآن مجید میں آیا ہے.جل جلالہ.)عجیبہ( سورۃ نور میں آیت نمبر۳۱میں سب سے زیادہ ضمیر یں ہیں۔ ۲۵ ضما ئرہیں۔ محمد ﷺ کا نام مبارک 4 مرتبہ آیا ہے احمد ایک مرتبہ آیا ہے حور کا ذکر بھی 4 مرتبہ وہ کون سی آیت ہے جس میں مکمل حروف تہجی استعمال ہوئےہیں محمد الرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفارسورہ فتح کی اس آیت کے علاوہ ایک اور آیت میں بھی پورے عربی حروف تہجی موجود ہیں۔

انسانی جسم

-1 انسان کے پسینے کی بنیادی طو پر کوئی بو نہیں ہوتی بلکہ ہماری جلد پر موجود جراثیم اس سے مل کر بو پیدا کرتے ہیں۔-2 جسم پر زیادہ بالوں کو ذہانت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔-3 جاگتا ہوا انسانی دماغ ایک چھوٹے بلب کو روشن کرنے جتنی توانائی پیدا کر سکتا ہے۔-4 انسان جاگنے کے دوران اپنا 10 فیصد وقت آنکھوں کے جھپکنے میں صرف کرتے ہیں۔-5 انسانی ہڈیاں 31 فیصد پانی پر مشتمل ہوتی ہیں۔-6 انسانی جسم میں موجود آئرن سے 3 انچ لمبا لوہے کا کیل بنایا جا سکتا ہے۔-7 جبڑے کے مسلز انسانی جسم کے مضبوط ترین مسلز ہیں۔-8 روزانہ رات کو سات گھنٹے سے کم نیند لینا انسانی زندگی کی معیاد کو کم کر دیتا ہے۔-9 ہم ایک قدم اٹھاتے ہوئے 200 مسلز کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔-10 انسانی دل جسم سے الگ کرنے کے باوجود بھی دھڑکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انسانی جسم میں اتنا فولاد ہوتا ہے کہ اس سے درمانے درجے کے سات کیل تیار ہوسکتے ہیں۔ انسانی جسم میں اتنی حرارت ہوتی ہے کہ اس سے چائے کی تین پیالیاں تیار کی جاسکتی ہیں، انسانی چھینک کی رفتارسو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ انسان کے جسم میں اتنی چربی ہوتی ہے کہ اس سے تقریباً چار پونڈ صابن تیار ہوسکتا ہے، انسان میں خون کے اعصاب مرنے کے آدھ گھنٹہ بعد تک انسان کی آنکھیں مرنے کے آدھ گھنٹہ بعد تک زندہ رہتی ہیں۔ انسان کا دماغ مرنے کے بعد دس منٹ تک زندہ رہتا ہے، اور کان مرنے کے بعد ایک گھنٹہ تک زندہ رہتے ہیں۔ انسانی جسم میں اتنی توانائی موجود ہوتی ہے کہ اگر اس کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جائے تو اس سے ساٹھ وولٹ کا بلب دو منٹ تک روشن کیا جاسکتا ہے۔ انسان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ پچاس سال تک تقریباً بیس ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے۔ مرد کی داڑھی ایک سال میں تقریباً سولہ انچ کے حساب سے بڑھتی ہے انسانی ہاتھ میں کل ستائیسہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی سر کل آٹھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی ٹانگ میں کل اکتیس ہڈیاں ہوتی ہیں، انسانی جسم میں کل دو سو چھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ انسانی جسم میں کل پچیس لاکھ مسام ہوتے ہیں۔ انسانی ناخن روانہ اوسط اعشاریہ ایک ملی میٹر کے حساب سے بڑھتے ہیں۔ انسانی جلد کا وزن پورے جسم کے وزن کے سولہ فیصد ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں 65 فیصدپانی ہوتا ہے انسان کے دونوں پھیپھیڑوں میں سے دائیں طرف والا پھیپھڑا بڑا ہوتا ہے۔
ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﺩﻥﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﯾﮑﭩﻮ) Active ( ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ .ﺟﺲ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺘﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺁﺗﮯﮨﯿﮟ . ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ IQ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﯾﻌﻨﯽﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﯽﺻﻼﺣﯿﺖ .ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯﮨﯿﮟ .ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﺧﻮﻥﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ.ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺗﯿﻦﺳﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﺎ ﺗﯿﺰﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ.ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﺎ ﺑﺎﺭ ﺟﭙﮑﺘﯽﮨﮯ.ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﻮﻧﮕﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺑﮩﺖﺗﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺁﺩﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ 6.8 ﻟﯿﭩﺮ ﺧﻮﻥ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ. ﺟﺒﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ 5ﻟﯿﭩﺮﺧﻮﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ.ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮨﻢ ﺍﺗﻨﺎﺗﮭﻮﮎ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺳﻮﺋﻤﻨﮓﭘﻮﻝ ﺑﮭﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯽﺻﻼﺣﯿﺖ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞﺍﻭﺭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﺮﻧﭧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ .ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻢﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻨﭩﯽ ﻣﯿﭩﺮ ﻟﻤﺒﮯﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ .ﺟﺒﮍﮮ ﮐﯽ ﮨﮉﯼ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﮉﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﻞ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﺎﻧﺼﻒ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ .ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮨﻢ color blind ﮨﻮﺗﮯﮨﯿﮟ ﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﯽ ﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﮐﻮ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ .ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺣﺼﮧ ﮨﮯﺟﮩﺎﮞ ﺧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﻭﮦ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮈﮬﯿﻼ ) Cornea ( . ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﺎﮨﮯ .ﮨﻢ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺑﯿﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯﮨﯿﮟ . ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟﺭﮮ ﺳﮑﺘﮯ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮈﺍﻧﭽﮧ ﮨﺮ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪﻧﯿﺎ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ.ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ. ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺘﯿﺲﮐﺮﻭﮌ ﭘﺎﻧﭻ ﻻﮐﮫ ﺑﺎﺭ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﺎﺿﻤﮧ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺑﺎﺭﮦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍﺳﺎﺭﺍ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﻀﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ .ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺟﺴﻢ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 75% ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺟﺒﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻣﺎﻍ 80% ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ.ﺟﺐ ﮨﻢ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢﻣﯿﮟ ﮐﻞ300 ﮨﮉﯾﺎﮞ ﮨﻮﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ. ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ 206 ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ

Saturday, September 30, 2017

ڪيجهر

ڪينجهر ڪناراٺٽي جون ڪراچيءَ کان 82 ۽ ٺٽي کان24 ڪلوميٽرن تي موجود )هاليجي( ۽122 ڪلوميٽرن تي موجود)ڪينجهر( ڍنڍون، جن ۾ تقريبن )سواٻه سئو( قسمن جي پرديسي پکن ۽ پکڙن جون آمجگاهون رهنديون پيون اچن. هاليجي ڍنڍ کي ته )ٻي جنگ عظيم( جي وقت ۾ ئي برطانوي راڄ جي حاڪمن )پاڻيءَ جي محفوظ ذخيري طور( تعمير ڪرايو هو، جيڪو 22 هزار ايڪڙن، 18 ڪلوميٽر جي قطر تي مشتمل آهي. اِيشيا جي پهرين مسجد به ٺٽي ۾ ٺهي، ته اسلام به ٺٽي مان ئي ڦهليو ۽ ۾سهور دين جا عالم به هتيئي پئدا ٿيا، ۽ اڄ به دين جا گهڻا بُزرگ هتي رهيا ۽ هتان ئي دين جي تبليغ ڪرڻ لاءِ اُٿيا.ته جنهن ٺٽي جي ڪري سنڌ )باب الاسلام( سنڌ بڻيو. اُتي اهڙين گهڻين ڍنڍن مان، ٺٽي ضلعي ۾ موجود ڍنڍ) نور ۽ ڄام تماچيءَ( جي پيار جي ساکي )ڪينجهر( به هڪ آهي، جيڪا ڪجهه سال اڳ دنيا ۾ نيري پاڻيءَ جي خوبصورت ترين ڍنڍ به سمجهي ويندي هُئي.ته ڪينجهر ٺٽي کان تقريبن 18 ڪلوميٽر پري، هڪ ٺٽي جي ٻي تواريخي ڍنڍ آهي، جيڪا )ڪينجهر ڍنڍ( جي نالي سان مشهور آهي. هيءَ ڍنڍ، سنڌ جي مشهور لوڪ داستان”نوري ڄام تماچي سان گڏ، شاهه لطيف جي ”سُر ڪاموٽ“ جي حوالي سان به مُلڪان ملڪ مشهوري آهي.سر سلابت، سپرين! مَرَڪَڻَ! تون مَ مـــــــــــريجِ،آهين ٺار اکين جو، وٽان مون مَ وڃيـــــــــــــــج،تماچي! تڳيج، ڪو ڏينهن ڪينجهر ڪنڌيين.۽ ان کان علاوه ، هيءَ ڍنڍ مٺي پيئڻ جي پاڻيءَ ۽ سير تفريح کان سواءِ، هزارين لوڪل ملاحن جي گذر سفر جو ذريعو به آهي، جن جو گذر ڍنڍ مان مرندڙ مڇيءَ مان ٿئي ٿو. هن ڍنڍتي، نه صرف پاڪستان پر دُنيا مان به گهڻي ۾ گهڻا مُلڪي ۽ غير مُلڪي سياح، پنهنجي ڪُٽنبن سميعت اچي خاص طور موڪلن وارن ڏيهاڙن تي، تفريح ۽ منورنجهن ڪري پنهنجي دُنياوي مونجهارن کي ختم ڪري و، وري اپس تازا توانا ٿي پنهنجي پنهنجي ڪرتن سان وڃي لڳن ٿا.هي ڍنڍ پاڪستان ۾ مٺي پاڻيءَ جي ٻي وڏي ۾ وڏي ڍنڍ توڙ جڳ مشهور آهي. ته اها مشهور تواريخي ۽ لوڪ ادب سان وابسطا ۽ سُڃاڻپ رکندڙ )ڪينجهر ڍند( ، سنڌ جي گاديءَجي هنڌ، ڪراچي شهر کان، تقريبن 122 ڪلوميٽرن تي آهي، ۽ ٻن ڪلاڪن جي ڊرائيو آهي. ڪينجهر ڍنڍڊيگهه 24 ڪلو ميٽر ۽ ويڪر 6 ڪلوميٽر آهي ۽ جيڪا )ٺٽي ۽ جهرڪن( جي وچ ۾ )هيلايا ٽڪريءَ( جي هيٺان آهي، ۽ سندس آس پاس گهاٽا ٻيلا به آهن.هڪ ڪاٿي موجب، هن ڍنڍ تي هڪ هفتي ۾ تقربن سترهن کان ويهن هزارن اندر ماڻهون تفريح لاءِ ايندا آهن ۽ مٺي پاڻيءَ جي موج ۾ پوري ڍنڍ جو موٽر وارين ٻيڙن ۾ سير ڪرڻ ، فشنگ، سُئمنگ سان گڏ، ڍنڍ جي وچ ۾ قدرتي قائم هڪ ٽڪريءَ تي، سنڌ جي لوڪ ادب )نوري ڄام تماچيءَ( سان وابسطا نوري ۽ اُن جي مُرشد جي قبر تي به فاتح پڙهي ويندا آهن.ڌنڍ جي ڪناري تي رات گُزارڻ وارن جي سهولت لاءِ مختلف کاڌن ۽ رهائش لاءِ موٽلز به آهن. ۽ان سان گڏ، اها ڍنڍ )ڪيجهر( نه صرف ڪراچيءَ جي شهرين لاءِ مٺي پاڻي فراهم ڪرڻ جو هڪڙو ذريعو آهي، پر گڏوگڏ، دُنيا جي بي شمار پکين ۽ پکڻن جو پسنديده رهائشي مسڪن به آهي جيڪي، پنهنجي مُلڪن جي سرد ٿيندڙ موسمي حالتن جي ڪري، خاص طور)سائبريا( جا مُسافر پکي پکڻ، هجرت )لڏ پلاڻ( ڪري، هزارين ڪوهن جو سفر ڪري، هن ڍنڍ کي اچي پنهنجو مسڪن بڻائين ٿا.سائبيريا، جيڪو روس جي پوري آباديءَ جو تقريبن 66 سيڪڙو حصو آهي، ۽ اهو علائقو )بر اعظم ايشيا( ۾)ڪوهه اورال( کان اُڀرندي طرف)بحرالڪاهل( جي ساحلي علائقن تائين ڦهليل آهي. ته جڏنهن اهي سائبيرين پکي ۽ پکڻ، هارين ميل سفر سان هجرت ڪري )ڪينجهر ڍنڍ( تي پُهچندا آهن ته ڪي شڪاري متوالا، ۽ انهن ئي سائبري پکين ۽ پکڻن جي شڪار ڪرڻ جا شوقين به اچي هتي جو ڀيرو ڀريندا آهن. حالنڪه انهن مُسافر پکين پکڙن جي شڪار تي سخت پابندي هُجڻ گهرجي، نه ته هي رُسيوڃي ٻي ڪا آزاد پناهه وٺندا ۽ سنڌ اهڙين خوبصورت، سائبري برفاني پکين جي ديدار ڪرڻ ۽ ڍنڍ تي ڦهليل خوبصورتيءَ کان محروم رهجيويندي.جيئن ته هيءَ ڪينجهر ڍنڍ، ناٽيڪل ماپ جي حساب سان، اُڀرندي “مشرق“يعني )ايسٽ( ۾ ناٽيڪل ) 68 ڊگري ۽ 3 منٽن( ۽ اُتر )نارٿ ۾( ناٽيڪل)24 ڊگري ۽ 57 منٽن( تي اهي ۽ جيئن ته هن جي سطح جي ايريا 13,468 هيڪڙ اسڪيل تي، ۽ پاڻِيءَ جي گهرائي، 0.53 ملين ايڪڙ فوٽ تي مشتمل آهي جنهن ڪري گهڻي پاسي تي گهُمي سير ڪندڙ سياح مزو وڍندا آهن ۽ ڪنارن تي جتي گهٽ پاڻي هوندو آهي، سوئمنگ به ڪندا آهن، جنهن ۾ هڪ ٻئي مٿان پاڻيءَ جي لهرن مان اُٿلندڙ ڇنڊا ٻُڪن ۾ ويڙهي اُڇلائي، منورنجهن ڪرڻ به سندن راند ۾ شامل هوندو آهي. پر حضرت انسان جي منفي سرگرمين دنيا جي ڪيترن ئي ڍنڍن جي ماحولياتي نظام کي تباهه ڪريڇڏيو آهي، هئي، بدقسمتيءَ سان هن وقت سخت ماحولياتي مسئلن جي ورچڙهيل آهي.ڪينجهر ڍنڍ، ڪينجهر تي مڇيون ماريندڙ مُهاڻن جي سردار )ڪينجهر( جي نالي سان مشهور ٿيل آهي، جنهن کي وقت جي بادشاه ڄام تماچيءَ انعام طور ڏني هُئي ۽ اُن کانپوءِ هيءَ ڍنڍ سنڌ جي لوڪ ڪهاڻين جو حصو به بڻجي وئي جنهن ڪري شاه عبدالطيف به ان تي شاعري ڪئي هُئي.تڏنهن جي روايتن موجب، سنڌ تي هڪ اهڙو )راجا( حڪمراني ڪندو هو جيڪو )جسودڻ راءِ( هو ۽ سندس هڪ راڻي هُئي جنهنجو نالو )مروبت( هو. هن بادشاه کي اولاد ڪونه ٿيندوته علاج ڪرائڻ کان علاوه پير فقير ۽ درويش به آزمايا ته کيس ڌيءَ جو اولاد ٿيو. جڏنهن راڻي)مروبت( کي ٻار پئدا ٿيو ته اُهو به پُٽ بدران )نياڻي( هُئي ۽ نياڻي به اهڙي جو )ڪاري ۽ ڪوجهي( ۽ پوءِ بادشاه جي حڪم موجب کيسڪنهن درياءَ ۾ ڦٽو ڪري اچڻو هو.ته دائيءَ جيڪا ڍنڍ جي ميربحرن مان ئي هُئي، ٻار کي ڦٽو ڪرڻ بجاءِ پنهنجي ميربحرن جي چڱي مُڙس)ڪينجهر( کي پالڻ لاءِ ڏنو.)ڪينجهر( ۽ سندس زال )سوني ٻائيءَ( بي اولاد هُئا ته هُنن پوءِ دائيءَ کان ٻار حاصل ڪري سندس نالو)نوري( رکيو.اُن وقت ٺٽي جو حاڪم )ڄام اُنڙ( هو ۽ سندس زال جو نالو )راڻي سنگهار( هو جنهن مان ڄام کي ٻه نياڻيون ته هُيون پر کيس به پُٽ جو اولاد ڪونه هو ۽ دُعائون ڪرايائين ته پُٽ ڄائُس جنهن جو نالو هُن )تماچي( رکيو ۽ جڏنهن هڪطرف ڄام تماچي جوان ٿيڻ لڳو ۽ٻي طرف ڪاري، ڪوجهي ۽ ڪلوٺي نوري به جوان ٿيڻ لڳي ته، سندس مُرشد جي دُعا سان سندس ڪاراڻ ختم ٿي وئي ۽ هُوءِ اڇي ٿي وئي. تڏنهن جڏنهن حڪومت جون واڳون ڄام تماچيءَ جي ھٿ آيون هُيون ته هُن ڪينجهر ڍنڍ جي ڀرسان هڪ وڏي ماڙي جوڙائي جتي هو اڪثر سير و شڪار ڪري اچي ترسندو هو ۽ ڪينجهر ڍنڍ جو ماڙيءَ مان ئي پريکان نظارو به ڪندو رهندو هو.اڳ ۾ نوري جڏنهن شاديءَ جي عُمر کي پُهتي ته “ڪينجهر“ کي سندس شادي ڪرڻ جو خيال آيو تههُن پنهنجي ڀائٽئي سان سندس شادي ڪرڻ ٿي چاهي ته هُن سندس ڪارپڻ جي ڪري ساڻس شاديءَ کان اهو انڪار ڪيو ايستائين جو نوريءَ جي ڪاري هُئڻ جي ڪري مُهاڻي قبيلو جو ڪو به فرد سندس سان شادي ڪرڻ لاءِ تيار نه ٿيو ۽ نوري انهن سڀني ڳالهين کان بيپرواه پنهنجي سئوٽ سان گڏ ٻيڙيءَ ۾ چڙهي مڇيون به مارڻ ويندي هُئي. چون ٿا ته ڪلري ڍنڍ جي انهي وچ تي جيڪو ٻيٽ)ٽڪري( هو اُتي هڪ )ولي الله( ويهي چلو ڪاٽيندو هو ۽ عبادت ڪندو هو، جنهنجو نالو ڪن روايتن ۾ )هوندل ياهوندڙ فقير( جي دُعائن سان پاڻ اڇي ۽ حور پري ٿي پئيجيئن ته ڄام تماچي ان ڪلري ڍنڍ تي هڪ وڏي ماڙي اڏائي هُئي ۽ اُتي اچي آرام ڪرڻ سان )ڪلري ڍنڍ( جو نظارو به ڪندو رهندو هو ۽ ڍنڍ تي مُهاڻين ۽ انهن جي ٻيڙين جي اچ وڃ مان لُطف اندوز ٿيندو هو ۽ پاڻ به ٻيڙيءَ ۾ چڙهي سير ڪندو هو، ته هڪ ڏينهن ماڙيءَ هيٺان ڍنڍن جي هڪ گهر ۾ جيئن ئي نوريءَ پنهنجو نقاب هٽايو ته پري کان سندس سونهن ۽ سوڀيا ڏسي ڄام مٿس عاشق ٿي پيو ۽ پوءِ حيلن بهانن سان ڍنڍ جو سير ڪرڻ وڃڻ لڳو ۽ بل آخر ڪينجهر کي نواريءَ سان رشتي لاءِ پيغام موڪليائين ۽ شاديڪري، نه صرف ڍنڍ تي پورو محصول ختم ڪيائين پر اها ڍنڍ ئي ڪيجهر کي ڏئي ڇڏيائين، جنهن کان پوءِ اها ڍنڍ )ڪينجهر ڍنڍ( جي نالي سان مشهور ٿي وئي. ڄام تماچيءَ اڃان نوريءَ سان زندگيءَ جا چار، پنج سال ئي مس گُذاريا ته نوريءَ جي زندگيءَ جو وقت اچي پوروٿيس، ۽ هوءَ وفات ڪري وئي، ۽ وصيت ڪري وئي ته کيس پنهنجيمُرشد جي پيرن وٽ، ڪينجهر ڍنڍ جيوڍ واري ٽڪريءَ تي پوريو وڃي. پوءِ سگهوئي ڄام تماچيءَ کي نوريءَ وڃڙي جو غم کائڻ لڳو، سندس سڀ شوق ختم ٿي ويا، سير سپاٽا ۽ شڪار وغيره سڀ ڇڏيڏنائين، آخر ڪار انهيءَ غم ۾ مري ويو. هن وقت سندس قبر مڪليءَ ۾ ڄام نظام جي مُقبري لڳ آهي. ڪي چون ٿا ته نوريءَ جي قبر به سندس ڀرسان آهي.هن وقت جيئن ته ڪينجهر ڍنڍ تي مُختلف علاقن جا ماڻهون پڪنڪ ۽ گهُمڻ خاطرِ اچن ٿا جنهن ۾ گهڻونتعداد ويجهڙائي وارن علائقن، حيدرآباد، ڪراچي ۽ ٺٽي جو هوندو آهي ، جيڪي پنهنجي موڪلن جي ڏهاڙن تي خاص طور هتي فيملين سان اچي، )سُئمنگ، فشنگ ۽ بوٽنگ( به ڪن ٿا ۽ اُنهن جي رات رهڻ لاءِ موٽلس به آهن جتي ترسي هو رات جو سير به ڪري سگهن ٿا. هڪ ڪاٿي موجب اُنهن سيحان ۽ تفريح ڪرڻ وارن جو تعدا هفتي ۾ تقريبن 17 هزارن تائين ٿي ويندو آهي. ڪينجهر جو سير ڪرائڻ لاءِ ، معلومات، گاڏين ۽ رهاشي سهولتون ڏيارڻ سان گڏ، نه صرف)پاڪستان ڊيولپمينٽ ٽورزم( جو ڊپارٽمينٽ پر، ڪراچيءَ ۾ )سنڌ ٽورزم ۽ ڊيولپمينٽس ڪارپوريشن( به آهي جيڪا سير ۽ سياحن سهڪار ڪري ٿي.ڪجهه وقت اڳ ماحوليات تي ڪم ڪندڙ هڪ تنظيم ”گرين انوائرمينٽ“هڪ سروي ڪرائي هئي، ته توهانکي جيڪڏهن ٻيهر زندگي ملي ته توهان ڪٿي پيدا ٿيڻ پسند ڪندو ته ماڻهن جي اڪثريت اهڙن هنڌن تي ٻيهر رهڻ پسند ڪيو، جتي مٺي پاڻيءَ جا ذخيرا، خاص ڪري خوبصورت ڍنڍون آهن، پر اهي سڀ اهڙن علائقن جا رهواسي هئا، جتي خوبصورت واديون، سائي چادر اوڍيلجبلن جون قطارون ۽ ڍنڍون موجود آهن، اهڙيون ڍنڍون جيڪي ڪنهن بهگدلاڻ جو شڪار ناهن، نه ئي انهن۾ گٽرن، اسپتالن، مال جي واڙن، زرعي زمينن جو خارج ڪيل پاڻي يا فيڪٽرين جو بنا ٽريٽمينٽ ٿيل مادو پوي ٿو، ان ڪري اهڙين ڍنڍن جي ڪناري هر قسم جي زندگي روان دوان آهي، کوڙ ساري مڇي، اڏامندڙ پکي ۽ خوبصورت انساني آباديون هُجن. ته اڄ اسان به اهي سڀ خوبيون سنڌ جي ڍنڍن، خاص ڪري)ڪينجهر( لاءِ ڳڻائي سگهون ٿا؟ جواب ٿيندو قطعي نه.هن آب گاهه )ڪينجهر( کي 1932ع ۾ ڍنڍ جو درجو ڏنو ويو هو، هن ڍنڍ کيپاڻي سنڌو درياءَ مان ڪوٽڙي بئراج وٽان نڪرندڙ دائمي واهه، ڪلري بگهاڙ واهه )ڪي بي فيڊر( ذريعي منتقل ڪيو وڃي ٿو، جڏهن ته برسات جي موسم ۾ اولهه کان نئين لوياچ ۽ اتر اولهه کان نئين سوڙهه به برساتي پاڻي سڄي ڪوهستان مان کڻي اچي ڪينجهر ۾ وجهن ٿيون.جيئن ته، سائيبيريا ۽ ٻين ٿڌن ملڪن مان ايندڙ پکين جو مَسڪن پڻ هي ڍنڍ آهي، جيڪي هتي اچي آنا ڏين ٿا ۽ انهن مان ٻچا پيدا ڪري ڪينجه جي فضائن ۾ ٻچن کي اڏارڻ سيکاري ولرن جي صورت ۾ پنهنجي ملڪن ڏانهن وٺي وڃن ٿا، يعني هيءَ ڍنڍ انهن پکين جي افزائش۽ نرسريءَ جو اهم هنڌ آهي، ماهرن جيتحقيق مطابق هن ڍنڍ تي مختلف ٿڌن ملڪن کان هر سال پکين جا تقريبن 65 قسم اچن ٿا، جن مان هڪ قسم سائيبيرين ڪونج جو به آهي، جنهن جي نسل جي ختم ٿي وڃڻ جو انديشو آهي..جيئن ته هيءَ ڍنڍ پيئڻ جي پاڻيءَ کان سواءِ، زراعت، ماهيگيري، ٻاهران ايندڙ پکين ۽ مختلف جانورن جو مَسڪن)Habitat(هئڻ سميت مختلف رُخن کان انتهائي اهميت واري آهي، ان ڪري هن ڍنڍ مان فائدو وٺڻ، مختلف رُخن کان ڍنڍ کياستعمال ڪرڻ، مڇي مارڻ، ڍنڍ مان مختلف قسم جون ٻوٽيون ڪڍڻ، غيرضروري پاڻي وٺن يا رهائش اختيار ڪرڻ ۽ غير قانوني شڪار ڪرڻ، خاص ڪري ناياب جنسن کي نقصانوغيره پهچائڻ کان بچائڻ لاءِ مختلف قومي ۽ بين الاقوامي قانون لاڳو ڪيا ويا آهن.سال 1971ع ۾ پاڪستان ۾ ”وائلڊ لائيف پروٽيڪشن آرڊيننس“ جي)شق نمبر 15 تحت( ”محفوظ گيم سينڪچري“ جو درجو ڏنو ويو، ۽ انهيءَئي آرڊيننس جي توثيق ڪندي سال 1977ع ڌاري، ”سنڌ وائلڊ لائيف پروٽيڪشن آرڊيننس“ تحت به هن ڍنڍ کي ”وائلڊ لائيف سينڪچري“ جو درجو ڏنو ويو آهي ، ان کان هڪ سال اڳ يعني 1976ع ڌاري هن ڍنڍ کي عالمي مڃتا ڏيندي، عالمي معاهدي ”رامسر ڪنوينشن“ تحت”رامسر سائيٽ“ جو درجو ڏنو ويو آهي.واضح رهي ته )رامسر سائيٽ( اهڙين )آبگاهن، پاڻيءَ جي ذخيرن، پارڪن ۽ علائقن( کي قرار ڏنو جنهن ۾ هيٺيون خاصيتون هجن :)1(. اهڙو پاڻي جو ذخيرو، پارڪ يا هنڌ جيڪو ڪنهن خاص جاگرافيائي خطي جي ناياب جانورن، ٻوٽن ۽ پکين جو مسڪن هجي.)2(. اهڙو پاڻي جو ذخيرو جتي پکين، مڇين ياٻين جانورن جي افزائش يا ٻچا/آنا ڏيڻ لاءِ مناسب حياتياتي ماحول مهيا ٿيندو هجي.)3(. اهڙو پاڻيءَ جو ذخيرو، پارڪ يا هنڌ جتي ٻوٽن جي ڪا اهڙي جنس ٿيندي هجي، جيڪا انخطي جي ڪنهن خاص قسم جي حياتيءَ کي برقرار رکڻ لاءِ اهم هجي.)4(. اهڙو پاڻيءَ جو ذخيرو جتي سڄو حياتياتي ماحولياتي نظام موجود هجي.هن ڪنوينشن مطابق سڄي دنيا ۾ موجود آبگاهن جي هڪ لسٽ ترتيبڏني وئي آهي، جنهن ۾ مٿيون خاصيتون هجن ته جيئن اهڙين آبگاهن جي حفاظت ۽ اهميت لاءِ ترجيحي بنيادن تي منصوبا ٺاهيا وڃن. هن ڪنوينشن ، جيڪو ايران جي شهر) رامسر( ۾ ٿيو هو، جنهن جي نالي جي پويان هن ک)ي رامسر ڪنوينشن( جو نالو ڏنو ويوجنهن ۾ 138 مُلڪن جا نمائندا شريڪ ٿيا هئا.پاڪستان به هن ڪنوينشن ۾، آبگاهنجي حفاظت جي لاءِ لاڳو ڪيل)مول متن تي( نه صرف صحيح ڪئي هُئي، پر )ريڪٽيفائِو( به ڪيو، ۽ پهرين ويهڪ ۾، پاڪستان جي اٺن آبگاهن کي )رامسر سائيٽ( قرار ڏنو ويو، جن ۾ )ڪينجهر ڍنڍ( پهرين نمبر تي هئي.واضح رهي ته هن وقت سڄي دنيا جون هزارين ڍنڍون ۽ ٻيون ماحولياتي سائيٽون ”رامسر سائيٽس“ جي حيثيت حاصل ڪري چڪيون آهن، پراهميت جي لحاظ کان رينڪنگ ۾)ڪينجهر ڍنڍ( جو شمار شروعاتي)سئو رامسر سائيٽس( ۾ ڪيو وڃي ٿو.پر افسوس سان چوڻو ٿو پوي ته سنڌ جيڪا اڳ ئي پاڻيءَ جي کوٽ، ڊيلٽا جي تباهي، ٻيلن جي واڌ ۽ جهنگلي جيوت جي تباهيءَ سميت ڪيترن ئي ماحولياتي مسئلن ۾ گهيريل آهي، ان جي عالمي حيثيت رکندڙ هيءَ ڍنڍ ڪينجهر سنگين گدلاڻجو شڪار ٿي چڪي آهي، جنهن جوسبب هونئن ته پاڻيءَ جي کوٽ، غير قانوني شڪار، آسٽريلين بيپاڙي ول، ٻيجاري جي چوري وغيره به آهن،پر ان جو اهم سبب اهو صنعتي گندڪچرو ۽ ڪيميائي مادو آهي، جيڪو ڪوٽڙي جي صنعتي علائقن، مال جيوٿاڻن توڙي فارمن مان خارج ڪري ڪينجهر ڍنڍ کي پاڻي مهيا ڪندڙ واهه، ڪلري بگهاڙ واهه )ڪي بي فيڊر( ۾ ڦٽو ڪيو وڃي ٿو، برساتن۾ نوري آباد صنعتي علائقي جو گندومادو به )موسمي ندي لوياچ( ذريعيڍنڍ ۾ داخل ٿيندو رهي ٿو. جنهن جونتيجو اهو نڪتو آهي جو هڪ طرف مڇيءَ جي پيداوار گهٽجي وئي آهي ته ٻئي طرف انساني صحت تي به انتهائي هاڃيڪار اثر پيا آهن، جن۾ پيٽ جون بيماريون، چمڙيءَ جون بيماريون، ٽي-بي، هيپاٽائٽس اچي وڃن ٿيون، ماهرن جي چوڻ مطابق ته انساني گند ڪچري، نالين جي گندگي ۽ مال جي واڙن مان ايندڙ گوبر وارو ڪِن ڪچرو ماڻهن سان گڏوگڏ آبي حيات خاص ڪري مڇين لاءِ تمام خطرناڪ آهي، جيڪو جيڪڏهن انساني جسم يا مڇين جي پيٽ ۾ داخل ٿي وڃي ته ڪينسر جو سبب بڻجي ٿو.ڪجهه سال اڳ ڪينجهر ڍنڍ ۾ اوچتووڏي تعداد ۾ جيڪي مڇيون مئل لڌيون ويون انهن جي جسم تي ڌَڪن جا نشان ۽ ڦلوڪڻا ڏٺا ويا، اسان وٽ ته هميشه جيان لاپرواهي ڪندي اهڙن حادثن ڏانهن ڌيان نه ڏنو ويندو آهي يا ان جا پيرا نه کنيا وينداآهن ته آخر ٿيو ڇو، پر ڪجهه ئي عرصي کان پوءِ آمريڪا جي به هڪڍنڍ ۾ مڇين ۾ اها ساڳي بيماري ڏٺيوئي ته انهن هنگامي بنيادن تي ماهرن جي هڪ ٽيم ويهاري، جن ٽن ڏينهن اندر ان بيامري جو سبب ڳولي ورتو، تحقيقي رپورٽ مطابق مڇين ۾ ان قسم جي ڪينسر جو سبب هڪ جراثيم فيسٽريا پسيسڊا هو، جيڪو انسان جو به تنتي سرشتو تباهه ڪريو ڇڏي، هن جراثيمجي جڏهن پيدا ٿيڻ جا سبب ڳوليا ويا ته خبر پئي ته اهو جراثيم انساني ۽ حيواني گند ڪچري )ڪرفتي ۽ گويز( جي ڍنڍ ۾ داخل ٿيڻ سان پيدا ٿئي ٿو.ماهرن جي چوڻ مطابق ته هن جراثيم لڳڻ سان پهرين مڇين جي جسم تي ڦلوڪڻا نڪرن ٿا، پوءِ اهي ڦلوڪڻا ڦِسيو زخم ٿيو پون ۽مڇين مٿان ڇلر لهڻ لڳندا آهن، نيٺمريو وڃن، مرڻ کان پوءِ به هي جراثيم مڇين جي گوشت کي کائيندورهي ٿو، ان ڪري آمريڪا ۾ هن جراثيم کي سڏين ئي دوزخي جراثيم، ڪينجه ڍنڍ جي مڇيءَ ۾ به ڪافي دفعا اهي علامتون ڏٺيون ويون آهن، پر هن طرف ڪو به ڌيان نٿو ڏنو وڃي، ان حيواني ۽ انساني مادي کان سواءِ نوري آباد، حيدرآباد، ڪوٽڙي ۽ ڄامشوري سميت ڪافي علائقن ۾ موجود فيڪٽرين، ملن ۽ آبادين جو خارج ٿيندڙ زهريلين گئس وارا ڪيميائي مادا ۽ زرعي زمينن مان نيڪال ڪيل زهريلن ڀاڻن ۽Pesticidesوارو مادو به ڪينجهر ڍنڍ ۾ داخل ٿيندو رهي ٿو، جن ۾ نائٽريٽ، ڪاربان، ميٿين، ڪلورين، سينٿيٽڪ ايسٽروجينڪ ڪيميڪل ۽ ٻيون گيسون هجن ٿيون، جن جي ڪينجهر ۾ داخل ٿيڻ سان پاڻيءَ جيڪيمسٽري، خاص ڪري آڪسيجن جو گهربل مقدار تبديل ٿي رهيو آهي، جيڪو انسانن ۾ مختلف بيمارين کانسواءِ آبي جانورن جي موت جو سبببڻجي رهيو آهي.ڪلورين گيس ايبنارمل ٻارن جي پيدائش ۽ ڪينسر جو سبب بڻجي رهي آهي، ڪلورين گيس سان پيدا ٿيندڙ بيمارين جو گهڻي ڀاڱي شڪار عورتون ٿين ٿيون، نائٽريٽ مليل پاڻي پيئڻ سان انسان جي گردن تي انتهائي هاڃيڪار اثر پون ٿا، هيءَ گيس ٻارن ۾ هڪ خاص قسم جي بيماري بليو بي بي سينڊ روم جو سبب بڻجي ٿي، جيڪا ٻارن لاءِ موت ثابت ٿئي ٿي، هيءَ جيڪڏهن ڪنهن عورت جي جسم ۾ شامل ٿي وڃي ته ان کي اولاد جهڙي نعمت کان محروم ڪريوسُنڍ بڻايو ڇڏي، اها صورتحال ڪينجهر ۾ موجود مڇين ۾ به ڏٺي وئي آهي ته بجاءِ پاڻي ۾ ٻيجارو تيرڻ جي، اهو مڇيءَ جي پيٽ ۾ ئي مري وڃي ٿو، هن وقت هتان مرندڙ اسي سيڪڙو مڇين جي پيٽ ۾ اهڙيقسم جو مئل ٻيجارو ملي رهيو آهي،هن ڍنڍ ۾ پوندڙ زرعي ڪِن ڪچرو ٻٽو نقصان پهچائي رهيو آهي، زرعي مادو هڪ طرف مڇي ۽ ٻي آبي مخلوق جي موت جو سبب بڻجي رهيو آهي، ته ٻئي طرف ڍنڍ ۾ موجود غير ضروري وڻن ۽ گاهن کي طاقت ڏئي رهيو آهي، ڪينجهر کي اهڙن ڪيترن ئي غير ضروري گاهن پنهنجي لپيٽ ۾ وٺي ڇڏيو، ماهرن جي چوڻ مطابق ته ان گاهه جي ڪري سج جا ڪرڻا هيٺ تائين نٿا پهچن، جنهن جي ڪري اهي گاهه ۽ ٻوٽيون جيڪي آبي جيوت کائي ٿي اهي اُسري ۽ نِسري نٿيون سگهن.تازو گڏيل قومن جي ماحولياتي اداري”ڪلين واٽر ايڪٽ“ تحت هڪ رپورٽ جاري ڪئي آهي، جنهن ۾ چيو ويو آهي ته هن وقت تائين 40 سيڪڙو مٺي پاڻي جون ڍنڍون ختم ٿي چڪيون آهن ۽ جنهن نموني پاڻيءَ کي آلوده ڪري ان جي ڪيمسٽري تبديل ڪئي پئي وڃي، انهن مان اهو اندازو لڳائڻ ڪو ڏکيو ناهي ته ايندڙ ڪجهه سالن ۾ وڌيڪ 20 سيڪڙو ڍنڍون بلڪل ختم ٿي وينديون، اهڙين ڍنڍن ۾ هيءَ بدنصيب ڍنڍ )ڪينجهر( به شامل آهي.اقوامِ متحده جي رپورٽ جي مطابق پاڪستان جي ڪل آبادي جا 10 ڪروڙ ماڻهون اهڙا آهن جن وٽ پيئڻ لاءِ صاف پاڻي موجود نه آهي ۽ وري انهن مان ٻه ڪروڙ ماڻهون گندي پاڻي واپرائڻ جي ڪري مختلف قسم جي بيمارين ۾ جڪڙيو وڃن. آخر ائين ڇو۔۔۔؟سنڌ جي خوبصورت ۽ مٺي پاني واري ڍنڍ ”ڪينجهر“ ڪراچي جي ويجهو هجڻ ڪري اڪثر گهمندڙ سان ڀريل رهندي آهي پر هاڻي اها )خوبصورت ڍنڍ( مسلسل آلودگي جي ور چڙهندي پئي وڃي ، جنهن جو ڪوبه حال احوال وٺندڙ نه آهي.پاڪستان سڳوري ۾ حڪومت کڻي ڪنهنجي به هجي، پر سڄي پاڪستان جي مظلوم قومن سان ۽خاص ڪري )سوني ڪڪڙ سنڌ سان( اهو ئي حشر رهندو پيو اچي. سوال اهو ناهي ته حڪومت ڪنهنجي آهي؟ سوال اهو آهي ته ڪهڙو نظام آهي ۽ اسان ڪهڙي مصيبت ۾ ڦاٿل آهيون . ڪينجهر ته ڇا )درياءِ سنڌ( به سُڪندو پيو وڃي، منڇر جي حالت اسانجي سامهون آهي، فصل اسانجا ختم ٿيندا پيا وڃن، ٻيو ته ٺهيو هاڻ قومي سگهه ۽ قومي سوچ به خطري ۾ آهي، قوم هوندي ته قومي خزانا به استعمال ٿيندا.نه ته پهاڪو آهيڌڻ ته ڌڻي ، نه ته وڪڻ کڻي